سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک ویڈیو میں قتل کرنے کی ترغیب دینے والے مذہبی رہنما افتخار الدین مرزا پر فردِ جرم کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ عدالت نے ملزم کی معافی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ملزم افتخار الدین مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ "آپ عدالت اور ججز کے ساتھ مذاق نہیں کر سکتے، اگر ایسی اجازت دی تو پھر نظام فیل ہو جائے گا۔"
دورانِ سماعت ملزم نے عدالت سے معافی کی درخواست کی اور کہا کہ اپنے الفاظ پر بہت شرمندہ ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کیس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں، آپ کے دنیا بھر میں رابطے ہیں پھر کہتے ہیں کہ غلطی ہو گئی۔
عدالت نے مرزا افتخار کی معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فرد جرم کی نقل ملزم کے وکیل کے حوالے کر دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسی زبان تو کوئی جاہل بھی استعمال نہیں کرتا۔ پہلے آپ بیان دیتے ہیں پھر اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے آپ پیسے بھی کماتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دورانِ سماعت کہا کہ اس معاملے پر توہینِ عدالت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ مرتکب توہینِ عدالت کو نوٹس جاری ہو چکے ہیں جس کا جواب بھی جمع کرایا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا بیانِ حلفی بھی عدالت میں پیش کیا گیا جو عدالت نے اٹارنی جنرل کے حوالے کر دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بیان حلفی میں بہت سنگین نوعیت کی باتیں ہیں اور بیان حلفی میں مرزا افتخار کا کنکشن شہزاد اکبر اور وحید ڈوگر سے جوڑا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ بیان حلفی کا جائزہ لے کر جواب دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وحید ڈوگر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت کنندہ تھا۔ کیا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے افتخار مرزا کے کنکشنز کا کھوج لگایا ہے؟ عدلیہ کے خلاف ایسا بیان کوئی اپنے طور پر نہیں دے سکتا۔
عدالت نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی طرف سے صرف رپورٹ پیش کی گئی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
مرزا افتخار کون ہیں؟
سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں گرفتار ہونے والے آغا افتخار الدین مرزا مذہبی شخصیت ہیں اور وہ یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فیس بک اور انسٹا گرام پر بھی ان کے اکاؤنٹس موجود ہیں۔
اُن کے آفیشل پیج پر سیکڑوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں مذہب کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست اور دیگر موضوعات پر بنائی گئی ویڈیوز موجود ہیں۔
آغا افتخار نے اپنی ایسے ہی ایک ویڈیو میں عقیدت مندوں سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں کیا ہے؟
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے مرزا افتخار الدین کیس میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے جس کے مطابق مرزا افتخار الدین کے دو فیس بک اکاؤنٹس 'دینِ شمس' اور 'معرفت الہی' کو بلاک کر دیا گیا ہے۔
مرزا افتخار الدین کے ساتھ ایک اور شخص اکبر علی کو بھی ایف آئی اے نے حراست میں لیا ہے جو ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلا رہا ہے۔
ملزم افتخار نے ایف آئی اے میں دوران تفتیش اپنے دیے گئے الفاظ کو تسلیم کیا لیکن سوشل میڈیا پر چلانے کے علاوہ ان الفاظ کو ریکارڈ کرنے کو کئی مقصد بتانے میں ناکام رہا۔
ایف آئی اے نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے افتخار الدین مرزا کے تمام اکاؤنٹس اور اب تک ادا کیے گئے ٹیکس کی معلومات بھی مانگی ہیں جب کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے حاصل ہونے والی آمدن کی تفصیلات بھی جمع کی جا رہی ہیں۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ افتخار الدین مرزا پہلے قادیانی تھے اور ان کے مطابق اسلام قبول کر کے شیعہ مسلک سے منسلک ہوئے اور راول پنڈی میں ایک مدرسہ چلا رہے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی شخصیات اور سوشل میڈیا
پاکستان میں ایک عرصے سے مذہبی شخصیات سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں اور ان کے لاکھوں کی تعداد میں فالورز بھی موجود ہیں۔
معروف مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل کے یوٹیوب پر 40 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں اور اُنہیں یوٹیوب کا گولڈن بٹن بھی دیا گیا ہے۔
اُن کے آفیشل پیج پر موجود ویڈیوز کو ڈھائی کروڑ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔
'بائٹس فار آل' کے شہزاد احمد کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پاکستان میں تین گروپس ہیں جو بہت اثر رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے آگے سیاسی جماعتیں ہیں جن کے باقاعدہ سوشل میڈیا سینٹر بنے ہیں۔ اس کے بعد اسٹیٹ اتھارٹیز ہیں جنہوں نے اپنے گروپس بنا رکھے ہیں اور تیسرے نمبر پر مذہبی گروپس ہیں جن کے ہزاروں گروپس اور ممبرز ہیں۔
پاکستان میں مذہبی عناصر کی سوشل میڈیا پر موجودگی بہت زیادہ ہے۔ ان عناصر پر کسی قسم کا کنٹرول یا چیک ہونے کے بارے میں شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ ذمے داری کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کو نہ تو کوئی پروموٹ کر رہا ہے اور نہ ہی اس کا ذمہ داری سے استعمال کر رہا ہے۔
ان کے بقول، پاکستان میں بہت سے پاور فل گروپس ہیں جنہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن عام آدمی اگر کچھ کہتا ہے تو ان کو جیلوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
شہزاد کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران کرونا کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ ہوا اور توہینِ مذہب کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بین المذاہب ایک دوسرے پر الزام لگتے تھے لیکن اب مختلف عقائد رکھنے والے بھی ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مندر کے معاملے پر جس قدر ٹوئٹس دیکھنے میں آئیں اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا مذہبی پہلو میں کس قدر زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔
ہارون بلوچ کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کو مذہبی شخصیت نے دھمکانے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں اگر سپریم کورٹ کے جج کو دھمکی ملی تو اس پر ردِ عمل بھی دیکھنے میں آیا اور ان کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی۔
ان کے بقول اس سے قبل آسیہ بی بی کی رہائی کے موقع پر بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا تھا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان دیکھنے میں آیا لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے تو تمام صورتِ حال قابو میں رہی تھی۔