کراچی —
پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پیر کی شام فائرنگ کرکے ایک اور شیعہ رہنما مولانا عالم موسوی کو ہلاک کر دیا گیا۔ نامعلوم افراد نے مولانا عالم کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ محلہ ڈھکی منور شاہ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے نماز کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔
دونوں مسالک کے علماء نشانے پر
مولانا عالم موسوی کے قتل کے ساتھ ہی رواں سال کے ابتدائی 20دن میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک سے تعلق رکھنے والے علماٴ کی تعداد 4 ہوگئی ہے، جبکہ ان علماٴ کے قریبی ساتھیوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد 9 ہوجاتی ہے۔
گزشتہ سال یعنی سنہ2013ء میں 18 دینی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
مرنے والے رہنماوٴں میں مولانا عالم موسوی، مفتی منیر احمد معاوضہ، مفتی اسد محمود، مفتی عثمان یار خان اور ان کے دو ساتھی، مولانا عبد الحمید، ان کا بھتیجا اور دو محافظ بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اس تعداد میں گولیوں کا نشانہ بننے والے وہ عام لوگ شامل نہیں ہیں، جن کا تعلق دونوں فرقوں سے تھا۔ جیسے تین جنوری کو کراچی میں مسکن چورنگی پر رات گئے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں مرنے والے پانچ افراد۔ ان میں سے تین افراد کا تعلق ہزارہ کی شیعہ برداری سے تھا۔
اس حوالے سے جب کراچی میں موجود رینجرز کے حکام سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی، تو ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
بقول ترجمان، اس کا مقصد شہر میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنا ہے۔رینجرز حکام نے اصرار کے باوجود، اس جماعت کا نام نہیں بتایا۔
پاکستان پچھلے بارہ، تیرہ سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن، اس کے باوجود اب تک ملک میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کی پالیسی ترتیب نہیں پاسکی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ آخری مراحل میں ہے۔
ملک کے تین صوبوں کے کم از کم پانچ شہروں میں دہشت گردی کے واقعات عام ہیں۔ ان میں پشاور سرفہرست ہے جبکہ کراچی کا نمبر دوسرا ہے۔ باقی شہروں میں راولپنڈ ی، بنوں اور سرگودھا شامل ہیں۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں حالیہ مہینوں میں تواتر سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جِس میں گھات لگا کر فرقہ وارانہ نوعیت کی ہلاکتیں ہوئیں۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں۔ لیکن، حالیہ واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا مرکز پنجاب ہوگیا ہے۔
دونوں مسالک کے علماء نشانے پر
مولانا عالم موسوی کے قتل کے ساتھ ہی رواں سال کے ابتدائی 20دن میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک سے تعلق رکھنے والے علماٴ کی تعداد 4 ہوگئی ہے، جبکہ ان علماٴ کے قریبی ساتھیوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد 9 ہوجاتی ہے۔
گزشتہ سال یعنی سنہ2013ء میں 18 دینی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
مرنے والے رہنماوٴں میں مولانا عالم موسوی، مفتی منیر احمد معاوضہ، مفتی اسد محمود، مفتی عثمان یار خان اور ان کے دو ساتھی، مولانا عبد الحمید، ان کا بھتیجا اور دو محافظ بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اس تعداد میں گولیوں کا نشانہ بننے والے وہ عام لوگ شامل نہیں ہیں، جن کا تعلق دونوں فرقوں سے تھا۔ جیسے تین جنوری کو کراچی میں مسکن چورنگی پر رات گئے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں مرنے والے پانچ افراد۔ ان میں سے تین افراد کا تعلق ہزارہ کی شیعہ برداری سے تھا۔
اس حوالے سے جب کراچی میں موجود رینجرز کے حکام سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی، تو ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
بقول ترجمان، اس کا مقصد شہر میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنا ہے۔رینجرز حکام نے اصرار کے باوجود، اس جماعت کا نام نہیں بتایا۔
پاکستان پچھلے بارہ، تیرہ سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن، اس کے باوجود اب تک ملک میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کی پالیسی ترتیب نہیں پاسکی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ آخری مراحل میں ہے۔
ملک کے تین صوبوں کے کم از کم پانچ شہروں میں دہشت گردی کے واقعات عام ہیں۔ ان میں پشاور سرفہرست ہے جبکہ کراچی کا نمبر دوسرا ہے۔ باقی شہروں میں راولپنڈ ی، بنوں اور سرگودھا شامل ہیں۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں حالیہ مہینوں میں تواتر سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جِس میں گھات لگا کر فرقہ وارانہ نوعیت کی ہلاکتیں ہوئیں۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں۔ لیکن، حالیہ واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا مرکز پنجاب ہوگیا ہے۔