پاکستان کی سینیٹ کی کمیٹی نے حکومت کو تجویز کیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے جاری اور مستقبل کے منصوبوں کی فیصلہ سازی میں اراکین پارلیمنٹ کو شامل کیا جائے۔
کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ اس مقصد کے لیے سی پیک اتھارٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپ میں ارکان پارلیمنٹ کی بطور رکن شمولیت ہونی چاہیے تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی پیدا ہو۔
یہ فیصلہ سینیٹ کی کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی نے کیا ہے جو اس سے قبل سی پیک منصوبوں کی سست رفتار پیش رفت پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔
سینیٹ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ مشترکہ ورکنگ گروپ میں ہونے والے فیصلوں کے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہی دی جائے کہ وہ کس قسم کی قانون سازی چاہتے ہیں اور وہ قانون کیوں درکار ہے؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میں ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ آرہا تھا کہ سی پیک اتھارٹی اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور کہتے ہیں کہ ہمارے فیصلے پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوتے جس کی وجہ سے منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر ہورہی ہے۔
سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اس سے نہ صرف پارلیمانی نگرانی بڑھے گی بلکہ یہ فیصلہ سی پیک اتھارٹی اور پارلیمانی کمیٹیوں کے کاموں میں مددگار ثابت ہوگا۔
کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان سے ایک ایک رکن کو سی پیک اتھارٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپ میں شامل کیا جائے۔
سلیم مانڈوی والا نے بتایا کہ سینیٹ کمیٹی کی یہ تجویز ایوان میں پیش کی جائے گی اور وہاں سے منظوری کے بعد حکومت کے اس پر عمل کرنے کی صورت میں دونوں ایوانوں کے ایک ایک رکن کو سی پیک کے مشترکہ ورکنگ گروپ میں شامل کیا جاسکے گا۔
یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں چین کی جانب سے سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سست ہونے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔
اس سے قبل سینیٹ کی منصوبہ بندی کمیٹی اس امر پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران سی پیک پر غیر تسلی بخش کارکردگی پر چینی کمپنیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک پر پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کا اعتماد بحال کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ملک میں 135 چینی کمپنیاں سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بھی بدھ کو پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک سے کہا کہ اس بڑے منصوبے کے تمام حصوں کی بروقت تکمیل کیلئے مزید موثر انداز میں کام کیا جائے۔
اسلام آباد میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سرمایہ کاری، تجارت، برآمدات اور رابطے کے فروغ میں پارلیمنٹ کے کردار کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اس سلسلے میں تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کرے گی۔
سی پیک منصوبوں کی سست روی پر وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے تاہم اب ان میں تیزی لائی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ 2014 میں پاکستان اور چین کے درمیان 46 ارب ڈالر کے منصوبوں کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے جن میں زیادہ تر توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے تھے۔