رسائی کے لنکس

'عثمان کاکڑ خوف کے دور میں انسانی حقوق پر بولنے والے چند افراد میں سے ایک تھے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ سنگین ہو چکا ہے۔ مجھے لاپتا افراد کے لفظ سے اختلاف ہے۔ جو لاپتا ہیں وہ ہمیں معلوم ہیں اور وہ جن کے پاس ہیں بس ان کے نام جاننا چاہتے ہیں۔"

یہ الفاظ پاکستان کی پختون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اور پاکستان کی سینیٹ کے سابق رکن عثمان خان کاکڑ کے تھے جو شہر کراچی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر حقوق کی تنظیموں کے تحت 22 مارچ کو کراچی پریس کلب کے بیک یارڈ میں ملک میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر منعقده سیمنار سے خطاب کر رہے تھے۔

عثمان کاکڑ ایک حادثے میں زخمی ہونے کے نتیجے میں چند روز کوئٹہ اور بعد میں کراچی کے اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد پیر کو چل بسے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ان کے انتقال کو ملکی سیاست کے لیے ایک بڑا نقصان اور ایک توانا آواز سے محروم ہونا قرار دے رہی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے شریک چیئرمین اسد اقبال بٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب انہوں نے عثمان کاکڑ کو کراچی میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر سمینار میں شرکت کی دعوت دی تو انہوں نے بلا ججھک دعوت قبول کرتے ہوئے شرکت کی یقین دہانی کرائی۔

ان کے بقول، "بحیثیتِ سیمینار آرگنائزر، میں نے عثمان کاکڑ سے کہا کہ وہ سیمینار میں شرکت کے لیے جہاز کے ٹکٹ اور کراچی میں ان کی رہائش کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خرچے پر کراچی آئیں گے اور خود ہی اپنی رہائش کا بندوبست کرلیں گے۔"

اسد اقبال بٹ نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے نہ صرف پروگرام میں شرکت کی بلکہ اپنی تقریر میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر بڑی بہادری سے اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس خوف کے دور میں انسانی حقوق کے مسائل پر بولنے والے چند افراد میں سے عثمان کاکڑ ایک تھے۔

پختون ترقی پسند رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی ایچ آر سی پی کے اس سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ عثمان کاکڑ کے انتقال پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ ملک میں امن، فیڈرل ازم، انسانی حقوق اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ایک ایماندار اور نڈر سیاسی رہنما تھے۔

ان کے بقول، "جب وہ سینیٹ کے رکن تھے تو انسانی حقوق کے مسائل میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاجی مظاہروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کی سول سوسائٹی اور ترقی پسند تنظیموں میں ان کے لیے کافی احترام پایا جاتا تھا۔

اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہنما

عثمان کاکڑ کی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات
عثمان کاکڑ کی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات

پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ عثمان کاکڑ حالیہ برسوں میں سینیٹ میں ابھرنے والی اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازوں میں سے ایک تھے جو انسانی حقوق کی پامالی، جمہوریت کی بحالی اور دیگر مسائل پر بہادری سے اپنا مؤقف پیش کرتے تھے۔

وہ مارچ 2015 سے مارچ 2021 تک سینیٹر کے عہدے پر موجود تھے۔ انہوں نے مارچ 2018 میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے اس وقت کے حکومتی اتحاد (پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا مگر حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے اتحاد کے مشترکہ امیدوار سلیم مانڈوی والا کامیاب رہے۔ سلیم مانڈوی والا کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔

اسلام آباد میں سینیٹ کے ایوان کی کارروائیاں رپورٹ کرنے والے ایک صحافی گوہر خان کے بقول حالیہ برسوں میں افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر اور پرویز رشید کے بعد عثمان کاکڑ وہ سینیٹر تھے جو ان معاملات پر بھی بات کرتے تھے جن پر دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کے سینیٹ اراکین بات کرنے سے کتراتے تھے۔

ان کے بقول، "پاکستان کی افغان پالیسی ہو یا جبری گمشدگیوں کا مسئلہ، حساس ترین معاملے پر بھی وہ سینیٹ میں بات کرنے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سینیٹر سمجھے جاتے تھے۔

عثمان کاکڑ پشتون تحفظ تحریک کے ایک احتجاج میں شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)
عثمان کاکڑ پشتون تحفظ تحریک کے ایک احتجاج میں شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)

عثمان کاکڑ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حامی رہنما تھے اور ان کے جلسے جلوسوں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ لاپتا افراد کی بازیابی اور مبینہ ماورائے قانون ہلاکتوں کے خاتمے سمیت ان کے مطالبات کی حمایت بھی کرتے تھے۔

رواں برس مارچ میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے ہمراہ سفر کے دوران عثمان کاکڑ پر خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ٹول پلازہ کے قریب ایک مبینہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔ اس حملے کے خلاف کوئٹہ شہر میں مظاہرے بھی ہوئے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کے بعد مقبول لیڈر

کوئٹہ وائس کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ عثمان کاکڑ ایک عوامی اور ملنسار سیاسی شخصیت تھے جو پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کے بعد پارٹی میں سب سے مقبول ترین رہنما سمجھے جاتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی کی نچلی سطح کے کارکنوں کی رسائی اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرنے کی وجہ سے عثمان کاکڑ دیگر رہنماؤں کے مقابلے میں کافی مقبول تھے۔

عثمان کاکڑ کئی برسوں تک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے ہیں۔

پارٹی کے کارکنان بھی سید علی شاہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پارٹی میں محمود خان اچکزئی کے بعد عثمان کاکڑ سب سے مقبول لیڈر تھے۔

محمود خان اچکزئی (دائیں)، عثمان کاکڑ، سردار اختر مینگل (بائیں)
محمود خان اچکزئی (دائیں)، عثمان کاکڑ، سردار اختر مینگل (بائیں)

چوالیس سالہ حامد کاکڑ پشتونخوا میپ کے ایک بنیادی کارکنوں میں سے ہیں۔ وہ عثمان کاکڑ کو تین دہائیوں سے جانتے ہیں جب مرحوم پارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم پختونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2002 میں انہوں نے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے انتخابات میں حصہ لیا مگر وہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے امیدوار سے شکست کھا گئے تھے۔

ان کے بقول "پارٹی نے بلوچستان کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر آل پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا مگر 2013 میں عثمان کاکڑ کی صوبائی صدارت میں پارٹی نے بلوچستان کے پختون اضلاع سے کامیابی حاصل کی۔"

پشتونخوا میپ کے یوں تو پاکستان بھر خصوصاً خیبر پختونخوا اور حال ہی میں اس صوبے میں ضم ہونے والے سابق قبائلی علاقوں میں تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے مگر پارلمانی اور سیاسی طور پر بلوچستان کے پختون اضلاع میں یہ جماعت اپنا اہم اثر و نفوذ رکھتی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان کے پختون اضلاع پر مشتمل خطے کو پشتونخوا میپ جنوبی پختونخوا پکارتی ہے۔

دو ہزار تیرہ میں پشتونخوا میپ نے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی اور اس اتحاد کے نتیجے میں پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی گورنر بنے تھے۔

پارٹی میں محمود خان اچکزئی کے بھائیوں کو گورنر اور وزیر بنائے جانے پر اندرونی اختلافات بھی پیدا ہوئے تھے۔ پارٹی رہنماؤں کی خواہش تھی کہ عثمان کاکڑ یا اس وقت کے مرکزی جنرل سیکریٹری اکرم شالہ لالہ کو گورنر بنایا جائے۔

بلوچ حلقوں میں بھی مقبول

مبصرین کہتے ہیں کہ روایتی طور پر پشتونخوا میپ کے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے تعلقات دوستانہ نہیں رہے جس کی وجہ صوبے میں افغان مہاجرین کی موجودگی، مردم شماری اور دیگر مسائل پر ان کے درمیان موجود اختلافات کا ہونا ہے۔

البتہ عثمان کاکڑ کا سینیٹ کے ایوان کے اندر اور باہر احتجاج میں صوبے کی بلوچ آبادیوں کے مسائل خصوصاً جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر آواز اٹھانے پر وہ بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی کافی مقبول تھے۔

افغان صدر کا اظہارِ تعزیت

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی عثمان کاکڑ کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

افغانستان کے صدارتی محل سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر غنی نے کہا کہ "عثمان کاکڑ افغان سرزمین کے زیرک سیاست دان اور امن کے خواہاں تھے۔ وہ افغان امن عمل کے حمایتی اور افغانستان میں بیرونی مداخلت کے سخت مخالف تھے۔"

پراسرار موت پر خدشات

عثمان کاکڑ کے قریبی رشتہ داروں اور پارٹی رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں کیوں کہ انہیں کوئی جسمانی صحت کا مسئلہ درپیش نہیں تھا۔

مرحوم کے رشتہ داروں نے ان کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

البتہ کراچی کے جناح اسپتال میں عثمان کاکڑ کے ہونے والی پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق لاش پر کسی تشدد یا جسمانی زخم کے نشانات نہیں تھے اور موت کی وجہ برین ہیمبرج سے ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاش کو پوسٹ مارٹم سے پہلے آغا خان اسپتال لے جایا گیا تھا جہاں کرانیوٹومی سرجری ہوئی جب کہ مکمل رپوٹ کیمیکل، پیتھولوجیکل معائنے کے بعد کچھ دنوں میں آئے گی۔

اس سے قبل پشتونخوا میپ کے ایک مرکزی رہنما رضا محمد رضا نے کارکنوں سے سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عثمان کاکڑ پر حملہ ہوا ہے جس کی وہ تحقیقات کریں گے۔

عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ ’مجھے اور میرے گھر والوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں'۔

سینیٹ میں بھی پیر کے روز حزب اختلاف کی جماعتوں نے عثمان کاکڑ کی پراسرار موت پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ مطالبہ کرنے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا، نیشنل پارٹی کے سینیٹر محمد اکرم، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی ہدایت اللہ اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ شامل ہیں۔

ایچ آر سی پی کے اسد اقبال بٹ نے بھی ان خدشات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عثمان کاکڑ پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

جنازہ و تدفین

عثمان کاکڑ کی نمازِ جنازہ پیر کی شب کراچی میں مزار قائد سے متصل باغِ جناح گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں سیاسی رہنماؤں سمیت سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔

ان کا جسد خاکی منگل کو بذریعہ سڑک کوئٹہ لایا جائے گا جہاں پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں انہیں آبائی ضلع مسلم باغ لے جایا جائے گا جہاں ان کی تدفین ہو گی۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG