ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شہزادی رائے نے کراچی میں اپنے گھر کے باہر ایک ایسے شخص کی ویڈیو شیئر کی، جس نے شہزادی کے بقول، اس کے گھر میں داخلے کی کوشش کی اور اسے ہراساں کیا۔ شہزادی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی ان پر حملے اور تیزاب پھینکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
پولیس نے جمعرات کو ہونے والی اس کارروائی پر فوری طور پر مقدمہ درج کیا۔ اس دوران ملزم کا ایک مختصر ویڈیو بیان بھی سامنے آیا جس میں وہ اپنے فعل کی معافی مانگ رہا تھا۔ تاہم پولیس نے اسے گرفتار کرکے اس کے خلاف درج مقدمے میں تفتیش شروع کر دی ہے۔
تاہم پاکستان میں خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے بلکہ قتل تک کر دینے کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں اب تک رواں سال میں چار خواجہ سراؤں کو قتل کیا جاچکا ہے جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 30 تھی۔
خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کا الزام ہے کہ ملک میں ایک منظم مہم کے تحت ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے اور اس کا آغاز 2018 میں پارلیمان سے منظور شدہ آئینی بل کی مخالفت سے ہوا اور بعد میں اس قانون کو گزشتہ سال وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج بھی کر دیا گیا، جو اب بھی زیرِ سماعت ہے اور اس میں مزید تیزی اس وقت آئی جب پارلیمان کے ایوانِ بالا میں ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ میں ترامیم پیش کی گئی۔
تحفظِ حقوق خواجہ سرا بل میں جس شق پر سب سے زیادہ تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اس کے خیال، گمان یا زعم کے مطابق اسے خواجہ سرا تسلیم کیا جائے۔
اس بل کی اس شق کی مخالفت کرنے والے اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ اس شق کے تحت اس سے قطعِ نظر کہ کوئی شخص پیدائشی طور پر مردانہ خصوصیات کا حامل تھا یا زنانہ، بلکہ وہ اپنے بارے میں جیسا گمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے اس کے دعوے کو تسلیم کرنا ہوگا۔
مخالفین کے مطابق پیدائش کے وقت ہی جنسی تشخص مقرر کر دیا جانا چاہیے اور اگر دعویٰ بعد میں فطری ارتقاء کے بعد جنس میں تغیر کا آگیا ہے تو اس کے لیے فیصلہ میڈیکل ایگزامینیشن بورڈ کو کرنا چاہیے، نہ کہ کسی شخص کے ذاتی خیال پر چھوڑ دیا جائے۔
سینیٹ میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے اکتوبر 2021 میں جمع کرایا گیا ترمیمی بل بھی میں انہی نکات پر مشتمل ہے۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے دیگر ترامیمی بل سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں زیرِ التوا ہیں۔
شہزادی رائے کا مؤقف ہے کہ ان حالات میں ملک کے اندر ایک منظم انداز میں نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔ بڑی مشکلوں اور سیاست دانوں کو خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل کی جانب نشاندہی کر کے یہ بل پاس کرایا گیا اور اس سے پاکستان کو دنیا میں پذیرائی بھی ملی لیکن پارلیمان میں اس کی منظوری کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہو پایا۔
ان کے مطابق بل کی منظوری کے بعد خواجہ سراؤں کو جو امید پیدا ہوئی تھی وہ امید کم ہوئی ہے اور ایک خاص مذہبی طبقہ پہلے عورتوں اور اب خواجہ سراؤں کے خلاف مذہب کے نام کو استعمال کرکے اپنے ووٹ بینک کو زندہ رکھنے کے لیے یہ مہم چلا رہا ہے جب کہ ایسے میں دیگر سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھی ہوئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نفرت پر مبنی اس مہم کا اثر ایک عام خواجہ سرا کی زندگی پر بہت زیادہ ہوا ہے جو شکل سے اپنا گزارا کر پا رہا ہوتا ہے اور اسے یہ معاشرہ پہلے ہی دُھتکار چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے عام طور پر بھکاری، سیکس ورکر یا پھر ناچ گانے سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کسی اور پیشے میں قبول نہیں کیا جاتا۔
اس معاملے پر بات کرنے کے لیے جب وائس آف امریکہ نے ملک کے آئینی ادارے اسلامی نظر یاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے کچھ علاقوں میں خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں ان پر قاتلانہ حملے بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ جس میں خیبر پختونخوا کے بعض علاقے شامل ہیں۔
ان کے بقول بہت سارے کیسز کی گہرائی میں جانے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بہت سے کیسز میں اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ ان میں زیادہ تر خواجہ سراؤں کو ان کے اپنے گروہوں کے درمیان ہونے والی کشمکش میں نشانہ بنایا گیا۔ خواجہ سرا اپنے گروہوں کی لڑائی میں اس کا شکار بن جاتے ہیں اور کبھی ان کے اپنے ساتھیوں سے جھگڑے کی وجہ سے بھی نوبت قتل تک جاپہنچتی ہے۔
قبلہ ایاز کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر کیسز میں ایسا ہی پایا گیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کسی واقعے میں خواجہ سرا زخمی ہو جائے اور انہیں کسی اسپتال میں پہنچایا جائے تو مرد انہیں مردانہ وارڈ میں اور عورتیں انہیں زنانہ وارڈ میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور یوں انہیں امتیازی رویے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو ریاست کو ان کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھنا چاہیے۔ ان کی فلاح و وبہبود کے لیے بہترین قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پھر معاشرے میں ان کی قبولیت پیدا کی جائے یعنی اسپتالوں، اسکولوں وغیرہ میں انہیں ہر قسم کی سہولیات بلا امتیاز دی جائیں۔ تب ہی ان کی زندگی میں کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
قبلہ ایاز کا مزید کہنا تھا کہ سال 2018 میں بنائے گئے ایکٹ میں جہاں ملک میں اسلامی جماعتوں کو اعتراضات ہیں، وہیں اسلامی نظر یاتی کونسل کے بھی اپنے اعتراضات ہیں۔ بالخصوص قانون میں موجود اس بات کا اختیار کہ کسی بھی شخص کو دینا کہ وہ خود اس بارے میں فیصلہ کرے کہ وہ اپنی جنس کیا رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس ایکٹ کو بنیاد بنا کر جان بوجھ کر ایک خاص ماحول پیدا کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دینے سے قبل وہ اُس کمیٹی کا حصہ تھے جس نے اس بل کی ترامیم پر بحث کررہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل تحفظِ حقوق خواجہ سرا بل تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی درست اور اسلام کے عین مطابق قرار دیا تھا لیکن یہ قانون بننے کے بعد اس بل کے خلاف جان بوجھ کر ایک مہم شروع کر دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ اس پر گفتگو شروع ہونے پر ہی خواجہ سراؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم اس معاملے پروفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس قانون کی جن شقوں پر جو اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ اس پر وفاقی حکومت غور کر رہی تھی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب چوں کہ یہ معاملہ وفاقی شریعت کورٹ میں چلا گیا ہے اور اب شریعت کورٹ جو فیصلہ کرے گی، وہی حتمی تصور ہوگا۔