رسائی کے لنکس

شمس الرحمٰن فاروقی: 'کئی زندگیوں کے برابر ایک زندگی'


اردو ادب کی کوہ پیکر شخصیت شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال سے ادبی دنیا ابھی تک سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔

فاروقی صاحب جب ایک ماہ قبل کووڈ-19 میں مبتلا ہوئے اور انھیں دہلی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا تو اس وقت ان کی علالت کی خبر سن کر ادبی حلقوں میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ سب کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے تھے۔ دعاؤں نے اپنا اثر بھی دکھایا اور وہ روبہ صحت ہو گئے۔

لیکن کیا خبر تھی کہ کووڈ نے ان کی صحت پر جو منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہ یوں نہیں جائیں گے، بلکہ ان کی جان لے کر ہی چھوڑیں گے۔

دسمبر کی 25 تاریخ کو جب دنیا کرسمس کا تہوار منا رہی تھی، فاروقی صاحب کے اصرار پر انھیں ایئر ایمبولینس کے ذریعے دہلی سے الٰہ آباد لے جایا گیا۔ وہاں پہنچنے کے نصف گھنٹے بعد ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ اس طرح سال 2020 جاتے جاتے اردو ادب کی ایک عہد ساز شخصیت کو لے گیا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا آبائی وطن اعظم گڑھ تھا۔ وہ 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

بعد ازاں الٰہ آباد ان کا وطنِ ثانی بن گیا اور وہ شہر جو پہلے اکبر الٰہ آبادی اور امرودوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھا، اب اس کی شہرت کی ایک وجہ شمس الرحمٰن فاروقی بھی ہو گئے۔

الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے 1957 میں سول سروس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ انھیں محکمہ پوسٹل سروس میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

لیکن ان کی وجۂ شہرت سول سروس یا پوسٹ ماسٹر جنرل کا اعلیٰ منصب نہیں ہے بلکہ ان کی وہ ادبی خدمات ہیں جو انھوں نے انجام دیں اور جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کہ اردو زندہ رہے گی اور جب تک اردو زندہ رہے گی، شمس الرحمٰن فاروقی کا نام بھی زندہ رہے گا۔

راقم الحروف کو شمس الرحمٰن فاروقی کو مختلف پروگراموں میں بارہا سننے کا موقع ملا۔ البتہ ان سے چند ہی اور مختصر ملاقاتیں رہیں۔ وہ جس طرح خرد نوازی کرتے تھے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں ان کے ہم عصروں پر غم و الم کا پہاڑ ٹوٹا ہے تو ان کے چھوٹے بھی ان کے وصال کے غم سے نڈھال ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا ادبی قد بہت بلند تھا۔ وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ عام طور پر کوئی نقاد کی حیثیت سے مشہور ہوتا ہے تو کوئی تخلیق کار کی حیثیت سے۔ کوئی فکشن رائٹر کی حیثیت سے تو کوئی شاعر کی حیثیت سے۔ کوئی عروض داں کی حیثیت سے تو کوئی ترجمہ نگار کی حیثیت سے۔

لیکن شمس الرحمٰن فاروقی ان تمام اصناف اور شعبوں میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ انھوں نے شاعری بھی کی۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری بھی کی۔ تنقید کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور تخلیق کے میدان میں بھی۔ انھوں نے ترجمہ نگاری بھی کی اور وہ عروض داں بھی تھے۔

'کئی زندگیوں کے برابر ایک زندگی'

دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سابق صدر اور ہندوستان کے معروف نقاد پروفیسر عتیق اللہ کے بقول شمس الرحمٰن فاروقی کے یہاں ماندگی کا کوئی وقفہ نہیں تھا۔ جب انھیں محسوس ہوتا کہ وہ ایک کام کرتے کرتے سستانے یا آرام کرنے کے مرحلے میں آ گئے ہیں تو وہ فوراً اپنا رخ موڑ لیتے تھے اور دوسری صنف پر کام کرنے لگتے تھے۔

ان کے بقول فاروقی صاحب نے اپنی ایک زندگی میں کئی زندگیوں کے برابر کام کیا۔ انھوں نے شاعری سے اپنا سفر شروع کیا اور پھر کئی میدانوں میں کارنامے انجام دیے۔

پروفیسر عتیق اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار 1955 میں علی گڑھ کے رسالے 'ادیب' میں غالب کے استعاروں پر فاروقی صاحب کا ایک مضمون دیکھا تھا۔ انھوں نے اپنا سفر غالب فہمی سے شروع کیا اور ہوتے ہوتے میر تک پہنچے۔

کثیر الجہتی عالم اور دانشور

بقول عتیق اللہ تنقید سے وہ شخصیت نہیں بنتی جو تخلیق سے بنتی ہے۔ اس کا احساس فاروقی صاحب کو بھی تھا۔ اسی لیے وہ تنقید سے تخلیق کی طرف گئے۔ وہ جس صنف کو چھیڑتے تھے اس سے دوسروں کی تعلیم مقصود ہوتی تھی اور اس صنف میں فاروقی صاحب کی طبع آزمائی سے دنیا کو پتا چلتا تھا کہ ناول کیسے لکھا جاتا ہے، افسانہ کیسے لکھا جاتا ہے، شاعری کیسے کی جاتی ہے اور رباعیات کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔

ممتاز دانشور، ادیب اور نقاد پروفیسر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کا علم یک رخا نہیں تھا اور وہ اتنی چیزوں سے واقف تھے اور انھوں نے اتنی جہتوں پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔

ان کے بقول شمس الرحمٰن فاروقی نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے اردو شعر و ادب کو پڑھنے کا ایک نیا زاویہ عطا کیا۔ ان کا ایک نمایاں کارنامہ داستان کی تاریخی روایت کو عہدِ حاضر میں زندہ کرنا بھی ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے ایک اور سابق صدر پروفیسر ابن کنول کہتے ہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام تھا۔ انہوں نے تین درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں اور اردو زبان و ادب کو اور خاص طور سے کلاسیکل ادب کو انگریزی خواں طبقے سے متعارف کرایا۔ یورپ اور امریکہ میں انہوں نے داستان گوئی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

داستان کی روایت کے مجدد

منشی نول کشور پریس لکھنو سے جہازی سائز میں شائع ہونے والی داستان امیر حمزہ 46 جلدوں پر مشتمل ہے۔ فاروقی صاحب نے پانچ جلدوں میں اس داستان کی تنقید لکھی ہے۔ ان کی اس کتاب کا نام "ساحری، شاہی، صاحب قِرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ" ہے۔

فاروقی صاحب کے ایک ہم وطن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے کارگزار صدر پروفیسر احمد محفوظ کے مطابق فاروقی صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ انھوں نے اس پوری داستان کو لفظ بہ لفظ پڑھا جو کہ تقریباً 50 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور یہ بتایا کہ داستان کو کیسے پڑھنا چاہیے۔

ان کے بقول انھوں نے تین جلدوں میں داستان کے اصول بیان کیے ہیں اور باقی کی دو جلدوں میں داستان کے کرداروں اور مکالموں کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ واقعات اور اس کی متخیلہ کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ انھوں نے ان کے نظریاتی اصول بیان کیے ہیں۔ انھوں نے 46 جلدوں میں سے صرف 10 داستانوں کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اب ان کے پاس طاقت نہیں ہے ورنہ اگر وہ یہ کام کرتے رہتے تو آٹھ، دس جلدیں اور تیار ہو جاتیں۔

احمد محفوظ کے مطابق فاروقی صاحب نے اپنے بھتیجے محمود فاروقی کو داستان گوئی کی طرف مائل کیا اور محمود فاروقی نے داستان گوئی میں پوری اردو دنیا میں نام پیدا کیا۔ ان سے تحریک پا کر آج بھارت، پاکستان اور دوسرے ملکوں میں متعدد داستان گو پیدا ہو گئے ہیں۔

احمد محفوظ کا کہنا ہے کہ ادبی دنیا میں یہ رائے بن گئی تھی کہ ناول داستان ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن فاروقی صاحب نے پہلی بار بتایا کہ داستان زبانی سنانے والا بیانیہ ہے اور ناول تحریری بیانیہ ہے۔ داستان اور ناول میں بنیادی فرق ہے اور دونوں کے تقاضے اور خصوصیات الگ الگ ہیں۔

میر کے شناسا

شمس الرحمٰن فاروقی کا ایک معرکة الآرا کام 'شعرِ شور انگیز' ہے۔ احمد محفوظ کہتے ہیں کہ میر تقی میر کو رونے دھونے والا شاعر سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ وہ غم و الم کے شاعر ہیں۔ لیکن فاروقی صاحب نے مذکورہ کتاب سے میر کے مروجہ امیج کو توڑا اور کہا کہ میر رنج و غم کے شاعر نہیں بلکہ کثیر الجہات شاعر ہیں اور ان کے یہاں زندگی، کائنات اور انسانی تجربات کے اتنے رنگ ہیں جتنے کسی اور شاعر کے یہاں نہیں۔

ان کے بقول فاروقی صاحب نے بتایا کہ میر کے یہاں غالب کی مشکل پسندی، پیچیدگی اور فلسفیانہ خیالات بھی ہیں۔ ان کے یہاں مومن کا رنگ بھی ہے اور داغ کا بھی۔ ہمارے کلاسیکی شعرا کو ان شعریات کی روشنی میں نہیں پڑھا گیا جن شعریات پر انھوں نے شاعری کی۔ لہٰذا انھوں نے میر کی شعریات کے اصول بیان کیے۔

افسانے، ناول، تراجم

شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے نام سے اور فرضی ناموں سے بھی افسانے لکھے جو کافی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ناول نگاری بھی کی۔

ان کا ناول 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' شہرۂ آفاق حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ناول پہلے پاکستان میں اور اس کے بعد بھارت میں شائع ہوا۔

احمد محفوظ کہتے ہیں کہ فاروقی صاحب نے بچپن میں کہانیاں لکھی تھیں۔ انھوں نے 15، 20 سال پہلے غالب، میر اور مصحفی پر افسانے لکھے۔ اس کے بعد انھوں نے 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' لکھا۔

ان کے بقول اس ناول میں قدیم ادبی تہذیب و تاریخ اور دہلی کا پورا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ اس وقت کے ادبی مذاق، سیاسی خیالات اور انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں کی نفسیات سب کچھ اس میں موجود ہے۔ اس ناول کے کردار جہاں جہاں اور جس جس عہد سے گزرتے ہیں وہاں وہی زبان استعمال کی گئی ہے جو اس وقت اور ان علاقوں میں رائج تھی۔

معروف صحافی اور ادیب ندیم صدیقی کہتے ہیں کہ ادبی ماہنامہ 'شب خون' اور شمس الرحمٰن فاروقی ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ کسی ایسے جریدے کو جو کہ ایک خاص نظریے اور تحریک کا حامل ہو تادیر بلکہ کم و بیش نصف صدی تک جاری رکھنا خود ایک کارنامہ ہے۔

کئی ادیبوں کا خیال ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے نصف صدی سے زائد عرصے تک شب خون کے ذریعے جدیدیت کو پروان چڑھایا۔

انھوں نے ترجمے کا بھی کام کیا۔ جب ان کے ناول 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' کا انگریزی میں ترجمہ شروع ہوا اور بات نہیں بن پائی تو انھوں نے خود ہی اس کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔ اس ناول کا ہندی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

بالی وڈ اداکار عرفان خان نے اس پر ایک فلم بنانے کا اعلان کیا تھا اور فاروقی صاحب نے اس کی اجازت بھی دے دی تھی۔ مگر عرفان خان کی زندگی نے ان سے وفا نہیں کی اور یہ کام رہ گیا۔

اس کے علاوہ فاروقی صاحب نے ابن صفی کے چار ناولوں کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔

کئی ادیبوں اور شاعروں کے خیال میں فاروقی صاحب نے سول سرونٹ اور انگریزی داں ہونے کے باوجود اردو میں اس قدر وقیع ادبی کام کرنے کے لیے وقت نکالا اور اتنا اور اچھوتا کام کر دیا جو کہ ادارے بھی نہیں کر پاتے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG