پاکستان کے لئے دستاویزی فلموں میں پہلا آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی شرمین عبید چنائے کراچی میں 1978ء میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اسمتھ کالج سے اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ۔ بعدازاں اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پالیسی اسٹیڈیز اور کمیونی کیشن میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔
شرمین اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے پڑھائی کی غرض سے غیر ملک (امریکا) کا چناوٴ کیا۔ وہ کہتی ہیں ”بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لئے انہیں اپنے والدین کو تھوڑاسا منانا پڑا۔“انہوں نے صحافت، سیاسیات اور دوسرے علوم بھی پڑھے۔ قابل قدر بات یہ ہے کہ انہوں نے فلم میکنگ کی کہیں سے بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔
ایک مرتبہ جب وہ چھٹیوں پرپاکستان آئی ہوئی تھیں تو انہوں نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپس کا دورہ کیا جہاں کی حالت زار دیکھ کر انہیں فلم سازی کا پہلی مرتبہ خیال آیا۔ ”شرمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ فلم سازی اور خصوصاً دستاویزی فلموں کے ذریعے ہی وہ لوگوں تک اپنی بات زیادہ موثر انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔
اس خیال کے ساتھ ہی وہ واپس امریکا گئیں اور اپنی کالج انتظامیہ سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ کالج نے ان کی سوچ اور خیالات کا خیر مقدم کیا اور وہ 2002ء میں پاکستان آکر فلم سازی کے کام میں جٹ گئیں۔ پہلی دستاویزی فلم کے لئے انہیں ان کے کالج اسمتھ کالج اور نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن پروڈکشن نے ہی فنڈز فراہم کئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ فلم سازی کے لئے آلات اور تربیت بھی انہی دو اداروں نے فراہم کی ۔
ان کی فلمیں ”سی این این، سی بی سی ، چینل فور، پی بس ایس فرنٹ لائن ورلڈ ، الجزیزہ“ اور” ایج بی او“ جیسے بڑی ٹی وی چینلز سے دکھائی جاچکی ہیں۔انہیں سن 2010ء میں فلم ”چلڈرن آف دی طالبان“ کے لئے ایمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
وہ پاکستان میں سٹیزنز آرکائیو آف پاکستان نامی ادارے کی بانی ہیں ۔یہ غیر منافع بخش اور رضاعی ادارہ ہے۔ ارادے کا کام بنیادی طور پر تاریخ پاکستان کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بنانا ہے۔ وہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی صحافی بھی ہیں ۔ وہ اب تک16دستاویزی فلمیں بناچکی ہیں۔ ان کی زیادہ تر فلمیں امریکا اور برطانیہ کے بڑے نیٹ ورکس پر نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔
ان کی فلموں میں ” چلڈرن آف دی طالبان“، دی لاسٹ جنریشن“، ”پاکستانز ڈبل گیم“ ، ”ٹیررز چلڈرن“ ، ” وومن آف دی ہولی کنگ ڈم“ اور ” افغانستان ان ویلڈ“ شامل ہیں۔”وومن آف دی ہولی کنگ ڈم “سعودی عرب میں رہنے والی خواتین کے متعلق ہے ۔ اس فلم کی شوٹنگ کے لئے سعودی حکومت نے پہلی مرتبہ انہیں اپنی سرزمین پر فلم سازی کی اجازت دی تھی۔
انہیں ”سیونگ فیس“ کے لئے آسکر ایوارڈ دیا گیا ہے۔ ”سیونگ فیس“ جنوبی پنجاب میں رہنے والی دو ایسی خواتین ، رخسانہ اور ذکیہ ،کی کہانی ہے جن پر تیزاب پھینکا گیا۔کہانی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹرمحمد جواد کو پاکستان آکر ایسی خواتین کا علاج کرتے دکھایا گیا ہے جن کے چہرے اور جسم تیزا ب سے جھلسا دیئے گئے۔فلم میں دونوں خواتین کی سسٹم کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کو فوکس کیا گیا ہے۔ ذکیہ راولپنڈی میں مقیم اور پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں ۔ وہی ذکیہ کا کیس لڑتی اور اس کے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔ ذکیہ کے چہرے پر اس کے شوہر نے تیزاب پھینکا تھا۔ اسے اس جرم کے لئے جیل جانا پڑتا ہے۔
”سیونگ فیس “ کے گونج پاکستان کے ایوانوں تک بھی پہنچی جس کے سبب پارلیمنٹ نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کو سنگین جرم قرار دیا اور اس کے حق میں ایک بل بھی پاس کیا۔ اس بل پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ شرمین کہتی ہیں کہ دیر سویر سے ہی سہی خواتین کو ان کا حق تو مل سکے گا۔
” سیونگ فیس“ کو اسکرایوارڈ کے لئے اکتوبر 2011ء میں نامزد کیا گیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ اسلام آباد، راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر مضافاتی شہروں میں کی گئی ہے۔ فلم گزشتہ سال نومبر میں امریکا میں ریلیز ہوئی جبکہ برطانیہ میں یہ اگلے ماہ یعنی مارچ میں ریلیزہوگی۔ اس کے بعد اسے پاکستان میں بھی ریلیز کیا جائے گا۔
آسکر ایوارڈ کے لئے امریکہ جانے سے پہلے وائس آف امریکا کے نمائندے سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی بھی پاکستان ٹی وی چینل نے ان سے” سیونگ فیس“ دکھائے جانے کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔
شرمین کو ملنے والے ایوارڈز
شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ سے پہلے متعددقابل ذکر ایوارڈز مل چکے ہیں جن میں ”انٹرنیشنل ایمی ایوارڈ“ ،” لیونگسٹن( Livingston) ایوارڈ فار ینگ جرنلسٹ “(شرمین یہ ایوارڈ جیتنے والی پہلی غیر امریکی شہری ہیں )، ”ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن ایوارڈ“،” ون ورلڈمیڈیا جرنلسٹ آف دی ائیر ایوارڈ“، ”ایلکوڈ ڈیو پوائنٹ ایوارڈ “اور” سنے(CINE) گولڈن ایگل ایوارڈ“ شامل ہیں۔
ذاتی زندگی
شرمین اپنی کامیابی کا سہرا اپنے گھر والوں اورخاص کر والد اور شوہر کی مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی کو دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے مگر ان کے والد کہتے ہیں کہ ان کی پانچ بیٹیاں نہیں، چھ بیٹے ہیں۔
شرمین کی تین چھوٹی بہنیں ٹیکسٹائل فرم چلارہی ہیں ۔ یہ ان کے والدکی ملکیت ہے جہاں ان کی بہنیں مردوں کی طرح تمام کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ ایک بھائی 12 سال کا ہے ۔
شرمین کی ایک اٹھارہ ماہ کی بیٹی بھی ہے جس کا نام امیلیا ہے ۔ امیلیا کی دیکھ بھال یا پرورش کے حوالے سے شرمین بتاتی ہیں کہ چونکہ وہ جوائنٹ فملی سسٹم میں رہتی ہیں لہذا ان کی ساس ، ان کے شوہر کی دادی اور باقی تما م افرادان کے ساتھ ساتھ امیلیا کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ۔ امیلیا اپنی دادی کی سب سے بڑی اور پہلی پوتی ہے لہذا دادی اور نانی دونوں کی طرف سے اسے خوب پیار ملتا ہے ۔
شرمین کہانی کار یعنی مصنفہ بھی ہیں ۔ ان کی لکھی پہلی کہانی چودہ سال کی عمر میں شائع ہوتی تھی۔ شرمین کا کہنا ہے کہ میری کہانیوں کا موضوع وہی ہوتا ہے جو اکثر لوگ چھوڑ دیتے ہیں۔ شرمین کا کہنا ہے کہ ان کام معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنے گا ان کا کہنا ہے کہ وہ گیارہ سال سے فلم میکنگ میں ہیں ، اب جاکر یہ مقام انہیں ملا ہے ورنہ ان کے پہلے کام کو 80چینلز مسترد کرچکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام کو مسترد کرنا حوصلے پست کردینے کے لئے کافی ہوتا ہے مگر انہوں نے اس پر بھی ہمت نہیں ہاری اور تن من سے لگی رہیں۔ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج وہ کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔
شرمین کا کہنا ہے کہ وہ ٹائم منیجمٹ پر بہت توجہ دیتی ہیں۔ مصروفیت کے باوجود گھر کا سودا سلف وہ خود لاتی ہیں ، خود پکاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنیماہالز دستاویزی فلمیں نہیں دکھاتے ،ہوسکتا ہے جس طرح غیر ملکی فلموں کی پاکستان میں نمائش شروع ہوئی ہے، دستاویزی فلمیں بھی مارکیٹ ہونے لگیں۔ البتہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔