بونیر کے سابق ڈسٹرکٹ کونسلر اور اقلیتی برادری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر تلت سنگھ نے ایک سکھ لڑکی اورمسلمان لڑکے کی آپس میں شادی اور والدین کی جانب سے جبراً تبدیلی مذہب کےالزام کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے پر مالاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں آباد نہ صرف سکھ بلکہ ہندو برادری کےلوگ ناراضی کا اظہار کررہے اور ان میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ برادری بھی پشتون روایات کا خیال رکھتی ہے۔
سکھ کمیونیٹی کے راہنما نے بتایا کہ دینا کماری اتوار سے سوات کے دارالامان میں ہے اور حکام نے ان کی ملاقات والدین سے کرا دی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں ایک تعلیم یافتہ سکھ لڑکی دینا کماری کی مسلمان لڑکے حزب اللہ سے مبینہ طور پر رضامندی سے شادی کے معاملے پر سکھ برادری سراپا احتجاج ہے۔ سکھ برادری نے الزام عائد کیا ہے کہ لڑکی سے جبراً اسلام قبول کرایا گیا جب کہ لڑکی کا مؤقف ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری سراپا احتجاج ہو۔ اس سے قبل بھی اقلیتی برادری کے خلاف تشدد یا اُنہیں قتل کیے جانے کے واقعات پر احتجاج ہوتا رہا ہے۔
اتوار کو بونیر، سوات اور شانگلہ سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے اراکین نے اس معاملے پر احتجاج کیا تھا جس پر مقامی انتظامیہ کی جانب سے اُن کے تحفظات دُور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
احتجاج کے دوارن لڑکی کے والد گور چرن لال جی نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کو بتایا تھا کہ "میری بیٹی دینا کماری دماغی مسائل کا شکار ہے، وہ ایک اسکول ٹیچر ہے، اور اسے سکول جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، پھر زبردستی اسلام قبول کراکے ایک مقامی شخص سے شادی کر دی گئی۔
سردار تلت سنگھ نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ یہاں کے مقامی ہیں اور ان کے آباؤ اجداد قیامِ پاکستان سے پہلے کے یہاں آباد ہیں
’’ ہم بھی پشتون روایات کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ ماضی میں بالخصوص سابق حکمران والیٔ سوات کے دور میں انہیں بہت زیادہ تحفظ حاصل تھا لیکن ان کے بقول اب ایسا نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اتوار کے مظاہرے اور احتجاج میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریکِ انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سے منسلک غیر مسلم برادری کے لوگ بھی شریک تھے ۔
سابق ڈسٹرکٹ کونسلر اور اقلیتی برادری کمیٹی کے سربراہ نے بتایا کہ دینا کماری اتوار سے سوات کے دارالامان میں ہے اور حکام نے ان کی ملاقات والدین سے کرا دی گئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اتوار کے مظاہرے اور احتجاج میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریکِ انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سے منسلک غیر مسلم برادری کے لوگ بھی شریک تھے ۔
آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ڈاکٹر تلت سنگھ نے کہا کہ انتظامیہ اور سیاسی رہنماؤں نے انہیں چار دن کا وقت دیا ہے ۔ حکام کے جانب سے حتمی جواب ملنے کے بعد وہ آپس میں مشاورت کرنے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل وضع کریں گے ۔
دینا کماری کون ہے؟
ماسٹرز ڈگری ہولڈر دینا کماری ایک مقامی سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ہفتے کو ایک مقامی نوجوان حزب اللہ سے ان کی شادی ہوئی تھی۔
اتوار کو ہونے والے مظاہرے کے دوران دینا کماری کی خالہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ دینا کماری کی شادی پہلے سے طے تھی اور آئندہ چند ہفتوں میں ان کی شادی ہونے والی تھی ۔
دینا کماری کی والدہ نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی کو زبردستی اغوا کرکے شادی پر مجبور کیا گیا۔
بونیر پولیس نے اتوار کو دینا کماری اور ان سے شادی کرنے والے نوجوان کو گرفتار کرکے بعد میں مقامی عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے لڑکے اور لڑکی اور پولیس حکام اور دیگر بشمول والدین کے بیانات قلمبند بند کرنے کے بعد خاتون کو سوات کے دارالامان اور لڑکے کو ڈسٹرکٹ جیل بونیر منتقل کرنے کا حکم دیا ۔
پولیس حکام کے مطابق ہفتے کی شام دینا کماری کے اسکول سے گھر واپس نہ آنے کے بعد ان کے والدین اور سکھ برادری کے دیگر لوگوں نے پولیس کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ اس دوران وہ مسلسل متعلقہ لڑکی کو برآمد کرکے ان کے حوالے کرنے اور لڑکے کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
لڑکی کا بیان
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں دینا کماری نے کہا کہ وہ عاقل اور بالغ ہے اور سرکاری اسکول میں پڑھاتی ہے او ر انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔
دوسری جانب سکھ اور ہندو برادری کا مؤقف ہے کہ لڑکی کو غائب کرکے اس ے زبردستی کورٹ میرج کی گئی ہے۔ انہوں نے لڑکی کو اس کےالدین کے حوالے کرنے کے لیے احتجاج کیا ۔تاہم اس وقت انہوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا جب لڑکی کو عدالت میں پیش ہونے کے بعد اسے دارلاامان منتقل کر دیا گیا۔