رسائی کے لنکس

اسٹیبلشمنٹ پر تنقید؛ عمران خان اس بیانیے کو اپنا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان، حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد سے سیاسی جلسوں اور بیانات میں حکومت کے ساتھ ساتھ مسلسل اسٹیبلشمنٹ کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں۔

گزشتہ اتوار کو انہوں نے ایک بار پھر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی جماعت کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا نیوٹرلز واقعی نیوٹرل ہیں؟

سابق وزیرِ اعظم کے بیانات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا عمران خان مستقل اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا چکے ہیں اور یہ کہ اس بیانیے سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حکومتی حلقے عمران خان کی جانب سے اداروں پر تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہیں اور اس عمل کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق تاحال عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کارگر رہا ہے اور پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے نتیجے میں حکومت کا قیام بھی ممکن ہوسکا ہے۔

’نئی نسل نہیں چاہتی کہ اسٹیبلشمنٹ کاسیاست میں کردار ہو‘

تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ اپنایا۔ جنوبی پنجاب جیسے علاقے، جہاں سیاسی طور پر روایتی سیاست دان کا ہی عمل دخل ہوتا تھا، وہاں بھی عمران خان خاصی شہرت رکھتے ہیں اور الیکشن جیت رہے ہیں۔ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا مزاج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ پاکستان کی نئی نسل نہیں چاہتی کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ہو۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے بقول عمران خان اپنے بیانیے سے فوج کے سیاسی کردار کو اجاگر کرکے اس سے سیاسی طاقت حاصل کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم کا نام لے کر وہ کہتی ہیں کہ نواز شریف نے ایک بار اسٹیبلشمنٹ کے خلاف براہِ راست بات کی لیکن پھر خاموش ہوگئے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بہت صعوبتیں برداشت کیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ردِ عمل کو کتنا برداشت کر سکتی ہے۔

’صورتِ حال حکومت کے قابو میں آنے کے بجائے مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے‘

تجزیہ کا اور پاکستان کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ حکومت کو یہ توقع نہیں تھی کہ عمران خان کو اقتدار سے نکالیں گے تو ان کی شہرت اس قدر بڑھ جائے گی۔حکومت عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے کیوں کہ اس کا انہیں نہ اندازہ تھا اور نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔

امجد شعیب کہتے ہیں کہ حکومت اپنے بچاؤ کے لیے ہر وہ قدم اٹھا رہی ہے، جس سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت عوام کی خواہشات کے خلاف جائے گی تو انتشار بڑھے گا۔ حکومت انتخابات سے بچنے کے لیے ہر کام کرنے کو تیار ہے لیکن صورتِ حال ان کے قابو میں آنے کے بجائے مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

’عمران خان فوج کے سربراہ اور ادارے کے درمیان خلیج کے لیے کوشاں‘

دفاعی امور کے تجزیہ کار اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ عمران خان فوج پر دباؤ کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہیں مگر وہ فوج پر بحیثیت ادارہ براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہیں۔

انہوں نےمثال دیتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران اعلانیہ طور پر عمران خان کے حق میں بات کرتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی متعدد نشستوں پر ضمنی انتخابات اور کراچی کے این اے 245 پر الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان سمجھتے ہیں کہ عوام کا ایک بڑا حصہ ان کے ساتھ ہے۔

اعجاز حیدر نے کہا کہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی اور غلط طریقے سے نکالا گیا۔

کیا عمران اپنے بیانیہ کو برقرار رکھ سکیں گے؟

یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو آئندہ انتخابات تک برقرار رکھ سکے گی؟ مبصرین کا ماننا ہے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے ساتھ اسی بیانیے کو مزید لے کر چلیں گے۔

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں عمران اس بیانیے کو لے کر چلیں گے کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ابھی انہیں ڈرا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمات اور گرفتاری کی کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے ہٹایا جائے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے بقول اگرعمران خان گرفتار ہو جاتے ہیں، تو یقیناِِ پی ٹی آئی پیچھے دھکیلی جائے گی اور یہ بھی خدشہ ہے کہ تشدد کا الزام لگا کہ جماعت پر پابندی ہی نہ لگا دی جائے۔

’عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حمایت حاصل ہے‘

اعجاز حیدر نے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اس وجہ سے نہیں چل سکا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حمایت اور دلچسپی نہیں تھی۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا معاملہ مختلف ہے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔

اعجاز حیدر کے بقول عمران خان اپنی اس حکمتِ عملی کو لے کہ مزید آگے چلیں گے، اگر ان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو یہ بیانیہ ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھے اور حکومت کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے انتخابات کی راہ ہموار ہو۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے اس بیانیے کے فوج کی تقسیم کی صورت میں خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ماضی میں بیانات

ایسے میں بعض مبصرین یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے مسلسل تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی ردِ عمل کیوں دیکھنے میں نہیں آیا ؟ یا اس پر کوئی ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے اس سے زیادہ سخت باتیں سن رکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ مریم نواز کے جلسے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے لگوائے گئے جس پر سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والوں کے خاندانوں پر کیا گزری ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ آج حکومت میں ہیں وہ جب اپوزیشن میں تھے تو ان کو سلیکٹر اور خلائی مخلوق کہتے تھے اور یہ بھی کہ ہماری جنگ ان کے خلاف ہے جو عمران خان کو لائے ہیں یعنی ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوتا تھا۔

امجد شعیب کہتےہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت ردِ عمل نہیں دیا تو اصولاً اب بھی ردِ عمل نہیں آنا چاہیے۔

’عمران خان کا الطاف حسین سے موازنہ ممکن نہیں‘

پاکستان آرمی کا ذکر کرتے ہوئے سابق فوجی جنرل نے کہا کہ فوج میں یہ احساس موجود ہے کہ عمران خان گلے شکوے کر رہے ہیں، جو کہ جائز شکایت ہے کہ ماضی میں نواز شریف اوران کی جماعت کے لوگوں کو تو نہیں پکڑا گیا، تو ان کی جماعت کے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا الطاف حسین سے موازنہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ عمران خان نے کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں کی۔ حکومت اگر عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کے تحت کارروائی کرے گی تو یہ ایک مثال بن جائے گی، جس سے کل ان کے لیے بھی مشکل ہوگی۔

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراضگی کے اظہار کہ ضرورت نہیں ہے بلکہ ہائبرڈ نظامِ حکومت میں مشکل فیصلوں کا بوجھ سیاسی حکومت اور کارکردگی کا صلہ اسٹیبلشمنٹ لیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا اندراج ہو رہا ہے، جس سے اسٹیبلشمنٹ فائدے میں ہے کہ سیاسی حکومت یہ سارا بوجھ اٹھائے۔

ان کے بقول ملک کی سیاسی صورتِ حال ایک ایسی نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے، تو اس کے بھی نتائج ہوں گے۔ اس عمل کے نتیجے میں سیاسی حالات مزید دگر گوں ہوں گے البتہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ اندازہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو آزاد چھوڑا، تو وہ مزید طاقت ور ہوتے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے آزاد رہنے کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ مزید پروان چڑھے گا۔

عمران خان کیا چاہتے ہیں؟

ماضی میں پی ٹی آئی کو عمومی طور پر اسٹیبشلمنٹ کی حلیف جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے، البتہ اب وہ خود اس تاثر کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کے لوگوں کے خلاف ہونے والا کریک ڈاؤن اسٹیبلشمنٹ کےایما پر کیا گیا۔

ان کے بقول پی ٹی آئی سربراہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کی حمایت ترک کردے۔

اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کے تقرر کے بعد عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اگر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی وجہ سے واپس اقتدار میں آنے دیتے ہیں تو تمام حالیہ معاہدے اور امریکہ و مغرب سے جو تعلقات اچھے کرنے کی کوشش ہے، ان سب پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

ان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کے حق میں نہیں وہ واشنگٹن سے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG