فروری 2017 کی ایک سہ پہر پاکستان کے شہر کراچی میں صدر میں واقع معروف مسیحی تعلیمی ادارے سینٹ پیٹرک اسکول کے آڈیٹوریم میں اُس وقت کے کراچی کے آرچ بشپ جوزف کٹس اور بشپ صادق ڈینئل نے 150 سے زائد مسیحی مذہبی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کی ایک بیٹھک منعقد کی تھی، جس کا مقصد 19 برس بعد ہونے والی چھٹی مردم شماری کے عمل میں مسیحی برادری کے افراد کی گنتی درست طریقے سے ممکن بنانا تھا۔
اس اجلاس میں شریک مسیحی رہنماؤں کا خیال تھا کہ 1998 کی مردم شماری میں پاکستان کے مسیحیوں کی آبادی کم بتائی گئی تھی۔ 2017 کے اوائل میں شروع ہونے والی مردم شماری کے عمل میں برادری کے افراد کی گنتی کو یقینی بنانے کے لیے شہر بھر میں مسیحی آبادیوں میں موجود چرچوں کی سطح پر ذمہ داری لگائی گئی۔
البتہ 18 مئی 2021 کو چھٹی مردم شماری کے جاری کردہ نتائج میں سامنے آیا کہ مسیحیوں کی آبادی مزید کم ہو گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے جاری کردہ نتائج کے مطابق، ملک کی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور پاک سر زمین پارٹی نے مردم شماری کے نتائج پر اعتراض کرتے ہوئے اسے متنازع قرار دیا ہے۔ اب مذہبی اقلیتوں نے بھی اعداد و شمار پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کو تین برس بعد دسمبر 2020 میں وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کی منظوری ایم کیو ایم کے اختلافی نوٹ کے ساتھ ہوئی تھی؛ جب کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے رواں برس اپریل میں 2017 کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کو منظور کیا تھا۔
مردم شماری کے نتائج اور مذہبی اقلیتیں
مردم شماری کے نتائج کا مطالعہ کرنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں چھٹی مردم شماری کے نتائج میں سامنے آیا ہے کہ گزشتہ 19 برس میں پاکستان میں مسلمانوں، ہندوؤں اور شیڈولڈ کاسٹ برادریز کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ مسیحی، احمدی اور دیگر اقلیتی برادریوں کی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک میں مسلم آبادی 96.47 فی صد ہے جو 1998 کی مردم شماری میں 96.28 فی صد تھی۔ اسی طرح پاکستان میں ہندو آبادی 1998 کی مردم شماری میں 1.6 فی صد سے بڑھ کر 1.73 فی صد ہو گئی ہے اور یوں پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت بن کر سامنے آئی ہے۔
البتہ مسیحی آبادی 1998 کی مردم شماری میں 1.59 فی صد تھی جو کم ہو کر حالیہ مردم شماری میں 1.27 فی صد ہو گئی ہے۔
اسی طرح ملک میں احمدی برادری کی آبادی 1998 کی مردم شماری میں 0.21 فی صد تھی جو کم ہو کر حالیہ مردم شماری میں 0.09 فی صد ظاہر کی گئی ہے۔
اسی طرح شیڈولڈ کاسٹ (یا نچلی ذات کے ہندوؤں) کی 1998 کی مردم شماری میں آبادی 0.25 فی صد تھی جو بڑھ کر حالیہ مردم شماری میں 0.41 فی صد ہو گئی ہے۔
دیگر اقلیتوں کی آبادی کو، جن میں سکھ، کالاش، پارسی اور دیگر شامل ہیں، 'دیگر' کا نام دے کر 1998 کی مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا جو کہ اُس وقت 0.07 تھی۔ اب یہ کم ہو کر 0.02 فی صد ہو گئی ہے۔
محکمۂ شماریات نے حالیہ رپورٹ میں مذہب کے لحاظ سے آبادی کو افراد کی تعداد کے بجائے صرف فی صد میں جاری کیا ہے جب کہ 1998 کی مردم شماری میں مذہب کی بنیاد پر آبادی کو تعداد میں ظاہر کیا گیا تھا۔
مسیحی آبادی کم کیوں ہوئی؟
کراچی میں مقیم مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے رہنما زاہد فاروق بھی مسیحیوں کو مردم شماری میں شامل کرنے کے حوالے سے کافی فعال تھے۔
مسیحیوں کی آبادی میں کمی کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں موجود چرچوں کی تنظیم اور سیاسی قیادت مردم شماری کے نتائج کو تسلی بخش نہیں سمجھتی۔ ان کے بقول، یوں لگتا ہے کہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں مسیحیوں کو شمار نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ "مردم شماری کے نتائج سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں مسیحی پیدا ہی نہیں ہوتے۔"
سندھ کے شہر حیدر آباد میں ایک چرچ کے سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں مسیحی برادری میں ناخواندگی اور غربت کی شرح زیادہ ہے۔ جب کہ شناختی کارڈ بنانے میں بھی ان کی عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسیحی مذہبی و سیاسی قیادت میں عدم اتحاد کی وجہ سے برادری مردم شماری میں اپنی درست آبادی ظاہر نہیں کرا سکی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسیحی زیادہ تر پنجاب میں آباد ہیں لیکن ان کی آبادی بکھری ہوئی ہے۔ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے چند حلقوں کے علاوہ ان کے ووٹ کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے اہم جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف انہیں نظر انداز کرتی رہی ہیں۔
چرچ رہنما کے مطابق دوسری جانب ہندو برادری، خصوصاََ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں اتحاد ہے اور وہ بڑی سطح پر کاروباری سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تھرپارکر اور عمرکوٹ میں ان کی اکثریتی آبادی ہے جس کی وجہ سے سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ان کے شناختی کارڈ بنانے اور ووٹر لسٹوں میں اندراج کے لیے کوشش کرتی رہتی ہے۔
ہندو اورشیڈولڈ کاسٹ
مردم شماری کے عمل میں اعلیٰ ذات اور شیڈولڈ کاسٹ (نچلی ذات) کے ہندوؤں کو دو الگ گروہوں کے طور پر گنا جاتا رہا ہے۔ یہ عمل ہندوستان میں برطانوی دور میں 1882 میں شروع کیا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد 1957 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے کولہی، بھیل، میگھواڑ، اوڈھ، باگڑی اور دیگر 40 نچلی ذاتوں کو اعلیٰ ذات سے علیحدہ کر کے شیڈولڈ کاسٹ قرار دیا گیا تھا جس کا مقصد ان پس ماندہ برادریوں کو سماجی اور معاشی طور پر دیگر برادریوں کے برابر لایا جانا تھا۔
حالیہ مردم شماری کے نتائج میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور شیڈولڈ کاسٹ کی آبادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ، شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مقابلے میں کافی کم ظاہر کیا گیا ہے۔
مسیحیوں کی طرح حالیہ مردم شماری کے دوران شیڈولڈ کاسٹ کے سماجی رہنما بھی اپنی برادری کو آگاہ کر رہے تھے کہ وہ ہندو کی جگہ شیڈولڈ کاسٹ کے خانے میں اپنا اندراج کرائیں۔
شیڈولڈ کاسٹ رائٹس موومنٹ کے رہنما رمیش جے پال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مردم شماری میں فارم بھرنے والے اہلکاروں کو اونچی ذات اور شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں میں فرق معلوم ہی نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ شیڈولڈ کاسٹ کی برادریوں کی 90 فی صد آبادی غریب اور ناخواندہ ہونے کے سبب خود ہی اپنی ذات کے بارے میں نا واقف ہے، جب کہ مالی حیثیت تبدیل ہونے والے شیڈولڈ کاسٹ والے ہندو بھی اپنے آپ کو نچلی ذات کا ہندو کہلوانے کو برا سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول، مردم شماری کا عملہ بھی شیڈولڈ کاسٹ کے دیہات کا دورہ کرنے کے بجائے اونچی ذات والے کسی بھی ہندو کی اوطاق پر ان سے ہی اعداد و شمار لے لیتے تھے۔
ماضی کی مردم شماری اور مسلم و غیر مسلم آبادیاں
لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ کار آصف عقیل کی ایک تحقیق کے مطابق برصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں غیر مسلم برادریوں کی آبادی 44 فی صد جب کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 12 فی صد تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے سے قبل یہاں اونچی ذات کے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے۔ البتہ مذہبی بنیادوں پر پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے بعد وہ ہجرت کر کے بھارت چلے گئے اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں مسلمان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔
آصف عقیل کے مطابق 1951 کی مردم شماری کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی کم ہو کر 14.1 فی صد رہ گئی تھی۔ اونچی ذات کے ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کر چکی تھی، جب کہ شیڈولڈ کاسٹ کی برادریوں، مسیحی، پارسی اور دیگر چھوٹی برادریوں کی ہجرت کا تناسب کافی کم تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 1961 کی مردم شماری میں غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی مزید دو فی صد کم ہو کر 12 فی صد رہ گئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی آبادی 88 فی صد رہی جس کی وجہ 10 برس کے دوران مذہب کی بنیاد پر ہجرت کا سلسلہ جاری رہنا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح 1971 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کے سبب مردم شماری ایک سال دیر سے 1972 میں ہوئی جس میں غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی 12 فی صد سے کم ہو کر تین فی صد تک آ گئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی آبادی 97 فی صد رہی۔ جس کی ایک وجہ بڑی تعداد میں غیر مسلموں کا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1981 کی مردم شماری میں بھی مسلمانوں کی آبادی 97 فی صد جب کہ غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی تین فی صد ہی رہی۔
آصف عقیل کے مطابق برصغیر کی تقسیم کے وقت ہندوؤں اور شیڈولڈ کاسٹ برادریوں نے بھارت ہجرت نہیں کی تھی۔ اس وقت مغربی پاکستان میں 76.8 فی صد مسلمان آباد تھے جب کہ 10 فی صد اونچی ذات کے ہندو اور 12 فی صد شیڈولڈ کاسٹ کی برادریاں آباد تھیں۔ یوں مشرقی پاکستان میں 22 فی صد غیر مسلم آبادی تھی۔
آصف عقیل نے کہا کہ 1998 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو کر 96 فی صد جب کہ غیر مسلم اقلتیوں کی آبادی بڑھ کر چار فی صد ہو گئی۔
احمدی کمیونٹی کیا کہتی ہے؟
حالیہ مردم شماری میں پاکستان میں غیر مسلم قرار دی گئی احمدی کمیونٹی کی آبادی میں بھی کمی بتائی گئی ہے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے رہنما عامر محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت کی جانب سے اب تک مذہب کی بنیاد پر آبادی کے اعداد و شمار جاری نہیں ہوئے جس سے یہ اندازہ ہو کہ احمدی کمیونٹی کی آبادی میں اضافہ ہوا یا کمی واقع ہوئی۔"
البتہ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں احمدی کمیونٹی کی آبادی چار سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے۔
آبادی میں کمی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کو درپیش مسائل، خصوصاً حملوں اور بکثرت توہینِ رسالت کے الزامات کے سبب احمدی کمیونٹی کی بڑی آبادی ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
سکھ مت اور دیگر مذاہب
مردم شماری کے فارم میں مذہب کے خانے میں صرف مسلم، مسیحی، ہندو، احمدی، شیڈولڈ کاسٹ اور 'دیگر' کے خانے درج تھے لیکن سکھ مت، کالاش، بیہائی اور بدھ مت مذاہب کے خانے درج نہیں تھے جنہیں 'دیگر' میں شامل کیا گیا تھا۔
پاکستان سکھ کونسل نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ سردار رمیش سنگھ خالصہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سکھ مت دنیا بھر میں ایک تسلیم شدہ مذہب ہے اور اس کے پیروکاروں کی ایک قابلِ ذکر تعداد نہ صرف پاکستان میں آباد ہے بلکہ اس مذہب کا آغاز بھی اسی خطے سے ہوا تھا۔
ان کے بقول، ’’تسلیم شدہ مذہب ہونے کے باوجود مردم شماری کے فارم پر سکھ مت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اور اسے 'دیگر' کے خانے میں شامل کیا گیا۔"
بعض سکھ رہنماؤں نے مردم شماری میں سکھ مت کا خانہ شامل نہ کیے جانے کے خلاف 2017 میں ہی پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ بعدازاں عدالت نے حکومت کو سکھ مت کے خانے کو مردم شماری کے فارم میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
سردار رمیش سنگھ نے بتایا کہ عدالتی حکم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ ان کے بقول مردم شماری کا آغاز پہلے ہی سے ہو چکا تھا۔
مردم شماری کا اقلیتوں کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے مذہبی اقلیتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں آبادیوں کی درست گنتی کی وجہ سے ملکی سیاست میں اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی بہتر ہونے کا امکان ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے رہنما زاہد فاروق کہتے ہیں درست مردم شماری سے ملک میں اقلیتوں کی حتمی تعداد کا تعین ہو سکے گا اور پارلیمنٹ میں اُن کی نمائندگی میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔
نئی مردم شماری کا عندیہ
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں شامل اتحادیوں، حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ اقلیتی رہنماؤں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات کے بعد وفاقی حکومت نے نئی مردم شماری کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہر 10 برس بعد مردم شماری کرانا لازم ہے۔ لیکن وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ رواں برس ستمبر یا اکتوبر میں نئی مردم شماری کا عمل شروع ہو جائے گا جسے مارچ 2023 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
پاکستان کے اقلیتی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا نئی مردم شماری کا فیصلہ اقلیتوں کے مطالبے پر نہیں بلکہ ملک کی با اثر سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
سردار رمیش سنگھ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئی مردم شماری سے قبل پاکستان میں آباد تمام اقلیتی رہنماؤں سے مشاورت کرے اور مردم شماری کے فارم میں تمام مذاہب کے خانے شامل کیے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مردم شماری کے عملے کی تمام مذاہب کے بارے میں آگہی دینے کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری میں بھی مردم شماری کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے۔