سندھ پولیس نے جامعہ کراچی میں رواں سال 26 اپریل کو ہونے والے خود کش دھماکے کے مبینہ سہولت کار کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔چینی ثقافت اور زبان سکھانے والے مرکز کے باہر ہونے والے اس دھماکے میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔
منگل کو سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے انسداد دہشت گردی ونگ(سی ٹی ڈی) نے سی سی ٹی وی فوٹیجز، جیو فینسنگ، فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کی مدد سے کراچی کے علاقے ماری پور ہاکس بے روڈ پر ایک کارروائی کی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) کے سلیپر سیل کے کمانڈر داد بخش کو گرفتار کیا گیا جس کی عرفیت شعیب، جہانزیب، مرزا،نبیل ، علی اور مراد ہیں۔ان کے بقول ملزم نے ابتدائی تفتیش میں انتہائی اہم انکشافات کیے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال 26 اپریل کو جامعہ کراچی میں چینی ثقافت اور زبان سکھانے والے ادارے 'کنفیوشیس انسٹیٹیوٹ' کے باہر خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوگئے تھے۔ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے قبول کی تھی اور اس میں خاتون خودکش حملہ آور 'شاری بلوچ' کو استعمال کیا گیا تھا۔بی ایل اے نے حملے کے بعد شاری کے پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغامات بھی جاری کیے تھے۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ داد بخش نے دورانِ تفتیش بتایا کہ وہ بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر خیل بلوچ عرف موسیٰ کے حکم پر جامعہ کراچی میں تعینات چینی اساتذہ سمیت مختلف ٹارگٹس کی ریکی کرچکا تھا۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ داد بخش نے خودکش حملہ آور خاتون، ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بلوچ اور ایک مبینہ دہشت گرد زیب سے ملاقاتیں کیں اور ان سے رابطے میں رہ کر چینی شہریوں پر حملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد فراہم کی۔
انہوں نے کہا کہ داد بخش بلوچ نے حکام کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی میں دھماکے کا ماسٹر مائنڈ زیب نامی شخص ہے، جو پڑوسی ملک سے پاکستان میں داخل ہوا ، وہ کراچی پہنچ کر شاری بلوچ اور اس کے شوہر کے دہلی کالونی والے فلیٹ میں مقیم تھا۔ زیب خود بھی دھماکہ خیز مواد بنانے کا ماہر ہے اور واقعے کے بعد وہ کراچی سے بلوچستان فرار ہوگیا تھا۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد کا آپس میں ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے رابطہ رہتا تھا۔ ان مبینہ دہشت گردوں کا رابطہ بیرون ملک مقیم علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتار شخص نے کراچی کے علاقے گلبائی میں دو چینی باشندوں کی گاڑ ی پر فائرنگ کے واقعے کا بھی اعتراف کیا ہے، جس میں ایک چینی باشندہ زخمی ہوا تھا۔
پولیس نے دادبخش کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرکے ان کا ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔
صوبائی وزیرِ اطلاعات کے مطابق جامعہ کراچی میں حملہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کا مشترکہ اقدام تھا۔حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد بنانے کی تربیت پڑوسی ملک میں مجید بریگیڈ کے ہیڈکوارٹرز میں کیپٹن رحمٰن گل کے تہہ خانے میں زیب سے حاصل کی تھی۔زیب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ شاری کی جانب سے خود کش حملے سے قبل جامعہ کراچی میں موجود تھا اور دھماکے کے بعد وہاں سے فرار ہوگیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مبینہ دہشت گرد زیب نے ڈاکٹر اللہ نذر، خلیل بلوچ اوردیگر اہم کمانڈروں سے پڑوسی ملک میں ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
البتہ حکام نے کسی بھی ملک کا نام لینے سے گریز کیااور کہا کہ اس ملک سے وفاقی حکومت کی سطح پر رابطہ کرکےبتایا جائے گا کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ بلوچ شدت پسند گروپس خواتین کو اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے جہاں کچھ نوجوانوں کو تربیت دی گئی ہے وہیں عدم تحفظ کا شکار خواتین کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ان کے بقول شاری بلوچ کا کیس نفسیاتی معالجوں کے زیرِ تحقیق بھی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ شاری بلوچ کوانتہائی مکاری سے نفسیاتی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیے اس کے شوہر اور ٹرینر نے نہ صرف شاری کی نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھایا، اس معاملے میں مخصوص ادویات کا استعمال بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض عناصر ملک میں چین پاکستان اقتصادری راہدرای(سی پیک) کے تحت لگائے جانے والے اربوں روپے کے سرمایہ کاری منصوبو ں کوغیر ملکی ایما پر ناکام بنانا چاہتے ہیں اور ملک کو غیر محفوظ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک بار پھر اپنی قابلیت ثابت کی ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں خود کش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے بارے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے دو بچے ہیں جو شوہر کے پاس ہیں۔ ان کے شوہر ایک ڈینٹسٹ ہیں اور ان کے والد ایک سرکاری ایجنسی میں ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں جو بعد میں تین سال تک ضلع کونسل کے رکن رہے۔
قبل ازیں پیر کو وزیرِاعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں تعینات چینی قونصل جنرل مسٹر لی بی جیان کی قیادت میں وفد سے ملاقات کی، جس میں چینی حکام کو مذکورہ کیس میں ہونے والی اہم پیش رفت سے آگاہ کیا۔ وفد میں اسلام آباد میں قائم چینی سفارت خانے میں تعینات پولیس قونصلر لی چنگ چُن، شنگھائی پولیس اتھارٹی کے افسر اور دیگر ٹیکنیکل اور سائبر سیکیورٹی کے ماہرین بھی شامل تھے۔
اس اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن نے کہا تھا کہ کیس کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش میں تیکنیکی اور زمینی حقائق سے استفادہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سی ٹی ڈی انٹیلی جنس ٹیم کی کوششوں سے اس کیس میں ریکی کرنے والے اہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کی تفصیلات بھی چینی حکام کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں۔
حکام کے مطابق سندھ میں اس وقت تین ہزار 637 چینی شہری سی پیک کے آٹھ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ چینی ماہرین کی حفاظت کے لیے 1500 پولیس اہلکار، 517 آرمی کے جوان، 173 رینجرزاہلکار، 28 ایف سی اہلکار اور 1143 نجی سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں۔اس کے علاوہ 21 حکومتی اور نجی اسپانسرڈ (نان سی پیک) منصوبوں پر دو ہزار 879چینی باشندے کام کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اپریل میں ہونے والے اس خود کش دھماکے کے بعد چین کی جانب سے انتہائی سخت ردِعمل سامنے آیا تھا اور حکومتِ پاکستان سے تمام چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس حملے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے رہائش پذیر بلوچ طلبہ کے خدشات میں اضافہ ہوا تھا۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت کئی دیگر شہروں میں بلوچ طلبہ کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔