ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کراچی غلام نبی میمن کو گزشتہ سال 14 نومبر کو فون پر اطلاع ملی کہ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں تین نائیجیرین باشندوں کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا ہے۔ پولیس فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچی اور ان تین غیر ملکی باشندوں کو بازیاب کرا لیا اور اس بنگلے کے چوکیدار ادیب ولد حبیب اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایک نائیجرین باشندے کی درخواست پر پولیس نے گرفتار ملزم کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا اور نائیجیرین باشندوں کو چھوڑ دیا لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔
چوکیدار کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی گئی تو عدالت نے مدعی نائیجیرین باشندے کو حیران کن طور پر چھوڑنے پر سوال اُٹھاتے ہوئے معاملے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔
چار ماہ بعد جب کیس کی دوبارہ انکوائری ہوئی تو بنگلہ کرائے پر دینے والے ملزم سلیم کو گرفتار کر لیا گیا۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ نائیجرین باشندے اسمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ تھے جو یہاں سے منشیات بھجوانے والے گروہوں کے پاس بطور ضمانت رکھوائے جاتے تھے۔
جیسے ہی منشیات وصول ہونے کے بعد رقم اسمگلرز کو مل جاتی تو ان افراد کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم سلیم نے دوران تفتیش بتایا کہ نصرت عرف نصر اللہ بزنجو عرف حاجی عمران نامی شخص نے ان نائیجیرین باشندوں کو اس بنگلے میں رکھا ہوا تھا اور یہ اپنے ساتھیوں اور تربت میں مقیم بعض افراد کے ساتھ مل کر چرس، آئس، کوکین و دیگر منشیات پاکستان سے بیرون ملک بالخصوص افریقی ممالک میں اسمگل کرتا تھا۔
نائیجیرین باشندوں کو بطور ضمانت کیسے رکھا جاتا ہے؟
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ چھوٹی اور بڑی لانچوں کے ذریعے سمندری راستے سے جن ممالک میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے وہ اپنے گروہ کا ایک شخص یہاں سے منشیات بھیجنے والی پارٹی کے پاس بطور ضمانت رکھواتے ہیں اور یہ نائیجیرین باشندے بطور ضمانت حاجی عمران کے پاس تھے۔
علاوہ ازیں جب دو سے چار ماہ کے عرصے میں یہ منشیات افریقی ممالک میں موصول ہو جاتی ہے تو پھر فروخت کے بعد اس کی رقم کی پاکستان میں ادائیگی بذریعہ حوالہ یا ہنڈی ہوتی ہے۔
حوالہ یا ہنڈی کے لیے رقم دبئی، قطر یا دیگر خلیجی ریاستوں میں ان منشیات فروش پارٹی کے کارندے کو ادا کی جاتی ہے۔ رقم موصول ہونے کے بعد پاکستان میں بطور ضمانت موجود افراد کو رہا کر دیا جاتا ہے۔
تفتیشی افسر اور ایس ایچ او ڈیفنس کا کردار
پولیس کی تفتیش میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ چھاپے کے بعد حاجی عمران نے با اثر افراد سے رابطے کیے اور پھر ڈیفنس تھانے کی پولیس نے ان نائیجیرین باشندوں کو ان کے سفارت خانے کے حوالے کرنے کے بجائے حب چوکی پر اسمگلرز کے حوالے کر دیا۔ اس کے عوض پولیس کو 70 لاکھ روپے بطور رشوت دیے گئے۔ بعد ازاں حاجی عمران اور اس کے کارندے ان نائیجیرین افراد کو لے کر تربت کی جانب چلے گئے۔
دورانِ تفتیش یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تین نائیجیرین باشندوں میں سے ایک کو رقم موصول ہونے کے بعد چھوڑ دیا گیا جو کراچی ایئرپورٹ پہنچ کر وہاں سے اپنے ملک با آسانی روانہ ہو گیا جب کہ باقی دو نائیجیرین باشندوں کو اب بھی نامعلوم مقام پر چھپا کر رکھا گیا ہے۔
اس مقدمے میں پولیس نے تھانہ ڈیفنس کے ایس ایچ او محمد علی اور ایس آئی او انسپکٹر وسیم ابڑو کو پیسے لینے کے الزام میں شامل تفتیش کرکے گرفتار کر لیا اور انہیں بھی نائیجیرین باشندوں کے اغوا کے کیس میں نامزد کیا ہے۔
منشیات کی اسمگلنگ؛ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟
پاکستان کی اینٹی نارکوٹکس فورس میں کام کرنے والے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان سے اسمگل کی جانے والی منشیات کا 60 فی صد پاکستان کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔
لیکن اس غیر قانونی تجارت میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کے ساتھ 2640 کلومیٹر اور ایران کے ساتھ 959 کلو میٹر سرحد پر باڑ کا نہ ہونا ہے۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے ساتھ بارڈر پر تعینات فورسز کی انسدادِ منشیات کی مناسب ٹریننگ نہ ہونا بھی اس غیر قانونی تجارت کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے۔
ماہرین اس بات پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں کہ ملک میں اینٹی نارکوٹکس فورس، کوسٹ گارڈز، میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، کسٹمز، ایئر پورٹ سیکیورٹی فورسز، لیویز اور پولیس جیسی فورسز کو خطیر بجٹ دیے جانے کے باوجود اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیادی وجہ مبینہ کرپشن اور اداروں کے مابین رابطوں کا فقدان ہے۔
ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اپنی رپورٹس میں بارہا یہ انکشافات کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان سے افغانستان کے راستے منشیات کی آمد اور پھر عالمی مارکیٹ میں اس کی اسمگلنگ کے لیے سمندری راستے استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور کروڑوں ڈالرز کا غیر قانونی کاروبار ہو رہا ہے۔
'جب تک منشیات کی طلب ہے تو رسد بھی ہوتی رہے گی'
جامعہ کراچی کی شعبہ کریمنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کا کہنا ہے کہ منشیات کی لعنت پر قابو نہ پانے کی سب سے بڑی وجہ تو طلب اور رسد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ منشیات کی طلب پوری دنیا ہی میں ہے تو سپلائی کسی نہ کسی صورت برقرار رہتی ہے اور بدقسمتی سے پوری دنیا میں یہ غیر قانونی تجارت ایک بڑے کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
ڈاکٹر نائمہ کہتی ہیں کہ اس دھندے میں اسمگلنگ کے بہت بڑے بڑے نیٹ ورک ملوث ہیں اور اس کو روکنے میں خامیاں دنیا بھر کے اداروں میں پائی جاتی ہیں جس میں ایک اہم وجہ کرپشن بھی ہے۔
اُن کے بقول منشیات کی اسمگلنگ کے عالمی روٹس میں پاکستان بھی آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہم لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو منشیات کا عادی ہونے سے بچائیں۔ اس کے لیے انہیں شعور تو دلانا ہو گا لیکن اس سے بھی زیادہ انہیں وہ ماحول فراہم کرنا ہو گا جہاں وہ منشیات سے بچ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشرے میں کھیلوں کو فروغ دینا ہو گا مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینا ہو گا تب ہی ہم منشیات کے مقابلے میں اپنے معاشرے کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کرسکیں گے۔
دوسری جانب پاکستان میں منشیات کے سدِ باب کے لیے قائم ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں بالخصوص افغانستان اور ایران سے منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہی ہے۔
ادھر وزارت انسدادِ منشیات کے مطابق اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بلوچستان کے علاقوں پنجگور اور لورالائی میں نئے تھانوں جب کہ جیونی اور پسنی میں اے این ایف کے نئے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔