سول سوسائٹی کے رکن اور ’آغاز دوستی‘ ویب سائیٹ کے کارکن، رضا محمود خان اچانک اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ وہ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤں کے رہائشی ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ نے اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے بات کرنے سے انکار کیا۔ رضا خان کے گھر والوں نے بھی ان کی واپسی کے بارے کوئی بات نہیں کی۔
رضا خان ’آغاز دوستی’ کے نام سے سوشل میڈیا پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی سے متعلق ویب سائیٹ چلاتے تھے، جنہیں سات ماہ قبل ان گھر کے قریب سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے اغوا کر لیا تھا۔
ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن، محمد عمران سیٹھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ رضا محمود خان اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ "ہمارے پاس کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ رضا خان 10 روز قبل اپنے گھر پہنچ گئے تھے؛ اورخیریت سے ہیں۔"
ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ وہ اس بارے میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
محمد عمران سیٹھی نے بتایا کہ رضا خان کو چند دن بعد بیان قلمبند کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن بلایا جائے گا اور ان سے تفصیل پوچھی جائے گی کہ وہ کہاں رہے، کن لوگوں نے انہیں اغوا کیا اور کیا ان کی کسی سے کوئی دشمنی ہے؟
پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم کے چیئرمین، ڈاکٹر مہدی حسن نے رضا خان کی واپسی کو ’’خوش آئندہ‘‘ قرار دیا۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ ’’ایسے لوگوں کو پاکستان کی طاقتور ایجنیساں اٹھا کر لے جاتی ہیں، کیونکہ ایجنسیوں کے لوگوں کے مطابق، رضا خان جیسے افراد پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’’جو لوگ واپس نہیں آتے وہ ’’مسنگ پرسن" کہلاتے ہیں؛ اور جو واپس آ جاتے ہیں ان کے دل و دماغ پر اتنا ڈر اور خوف بٹھا دیا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی نہیں بتاتے کہ انہیں کس نے اغوا کیا اور وہ اغوا کے دنوں میں کس حال میں کہاں رہے‘‘۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ "ایجنسیاں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی ہو، امن قائم ہو اور آپس کے تعلقات بہتر بنانے پر کوئی بات کر سکے"۔
رضا محمود خان کے اغوا کا مقدمہ لاہور کے پولیس اسٹیشن نصیرآباد میں درج کرایا گیا تھا اور ان کو بازیاب کرانے کے لیے سوشل میڈیا پر تحریک بھی چلائی گئی تھی۔