صومالیہ میں اس سال بھی تشدد اور خون خرابہ جاری رہا۔ القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسند گروپ الشباب نے اپنے قدم جما لیے اور صومالیہ کی سرحدوں کے باہر بھی دہشت گردی کے حملے شروع کردیے۔ اقوامِ متحدہ کی حمایت سے قائم ہونے والی عبوری وفاقی حکومت کو اندرونی خلفشار کا سامنا رہا اور اس بات کے آثار نظر نہیں آئے کہ وہ اگلے سال اگست میں اپنے اختیار کی مدت ختم ہونے سے پہلے کوئی مؤثر انتظامیہ قائم کر سکے گی۔
1991ء میں محمد سیاد بری کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے موگا دیشو کی سڑکوں پر تشدد اور جنگ و جدل روز کا معمول بن گیا ہے۔ لیکن 2007ء سے صومالیہ کی کمزور عبوری حکومت کے لیے انتہا پسندی پر مبنی ایک نئے خطرے نے سر اٹھایا ہے۔ الشباب کی تنظیم صومالیہ اور قرنِ افریقہ میں شرعی قانون نافذ کرنے کے لیے وفاقی عبوری حکومت سے جنگ کر رہی ہے۔
یہ تنظیم 2007ء میں صومالیہ پر ایتھوپیا کے حملے کے بعد نمودار ہوئی۔ القاعدہ سے وابستہ اس گروپ نے اسلامک کورٹس یونین کی جگہ لے لی ہے۔
صومالیہ میں مسلح باغیوں کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن 2010ء میں الشباب نے زیادہ سنگین خطرے کی شکل اختیار کر لی جب اس نے جنوبی اور وسطی صومالیہ کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا۔ افریقی یونین اور اقوام متحدہ کی مشترکہ امن فوج AMISOM کی موجود گی کے باوجود عبوری حکومت کو دارالحکومت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں دقت پیش آرہی ہے۔
پھر جولائی میں دنیا کی توجہ الشباب پر مرکوز ہو گئی جب اس نے یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں دو خود کش حملوں میں 76 افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ ورلڈ کپ کا فائنل میچ دیکھ رہے تھے۔ یہ دھماکے AMISOM کے مشن میں یوگنڈا کی فوجوں کی موجودگی کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر کیے گئے تھے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار رشید عابدی انتباہ کرتے ہیں کہ الشباب جسے پہلے محض علاقائی خطرہ سمجھا جاتا تھا اب بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہو گئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ہم ایک ایسی تنظیم کی بات کر رہے ہیں جو اب پختہ ہو چکی ہے۔ اب یہ محض القاعدہ کی ذیلی تنظیم نہیں ہے۔ ا ب یہ ساری دنیا میں جہاد عام کرنا چاہتی ہے اور اس کام کے لیے اس کے پاس سپاہی موجود ہیں‘‘۔
کمپالا میں کارروائیوں کے بعد الشباب کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس نے ستمبر کے شروع تک موگادیشو سے صومالیہ کی حکومت کو نکال باہر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
ایک مہینے کی خونریز لڑائی میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ لیکن معجزہ یہ ہوا کہ AMISOM اور سرکاری فوجوں نے باغیوں کے حملے پسپا کر دیے۔ ان کامیابیوں کا بڑا چرچا ہوا اور کہا جانے لگا کہ الشباب کے دن پورے ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ جشن زیادہ دن قائم نہیں رہا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی جھڑپوں میں100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بڑھتے ہوئے تشدد کے باوجود بین الاقوامی برادری کا الشباب کو شکست دینے کا عزم برقرار ہے۔
22 دسمبر کو اقوام متحدہ نے AMISOM کے سپاہیوں کی تعداد 8,000 سے بڑھا کر 12,000 کرنے کی منظوری دے دی ہے اور یوگنڈا نے وعدہ کیا ہے کہ بین الاقوامی فنڈنگ سے وہ اپنے فوجیوں کی تعداد 20,000 کر دے گا۔
لیکن کرائسس گروپ کے رشید عابدی نے انتباہ کیا ہے کہ صومالیہ میں فوج کے بل پر فتح عارضی ہو گی۔ الشباب کے مسئلے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت سے قائم حکومت بہت کمزور ہے۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔ الشباب پرعارضی طور پر فتح حاصل کرنا تو ممکن ہے، لیکن اس سے ایک اور مسئلہ پیدا ہو جائے گا کیوں کہ فی الحال حکومت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ AMISOM کے مدد سے حاصل ہونے والے علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے‘‘۔
لیکن حال ہی میں امید کی ایک کرن نظرآئی ہے۔ اکتوبر میں صدر شریف نے امریکی شہری محمد عبداللہی محمد کو وزیرِاعظم مقررکیا۔ شروع میں صومالیہ میں انہیں بہت کم لوگ جانتے تھے اور مقامی لیڈروں نے اس تقرر پر تنقید کی۔ لیکن نئے وزیرِ اعظم نے قبائلی وابستگی کے بجائے تجربے پر اصرار کیا اور ماہرین پر مشتمل چھوٹی سی کابینہ کا تقرر کیا۔ اس پر ان کی تعریف ہوئی اور کچھ امیدیں پیدا ہوئیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نئے وزیر اعظم کے پاس صرف چند مہینے ہیں جن میں انہیں اتنے کام کرنے ہیں جو بظاہر ناممکن معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں الشباب کی بیخ کنی کرنی ہے، ایک آئین بنانا ہے اور اگست میں عبوری وفاقی حکومت کا اختیار ختم ہونے سے پہلے قومی انتخابات منعقد کرنے ہیں۔
صرف وقت ہی بتا سکتا ہے کہ موجودہ صومالی حکومت کو صومالیہ میں امن قائم کرنے کا ایک اور موقع ملے گا یا نہیں۔ لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ2011 ءمیں جو بھی حکومت بر سرِ اقتدار ہو گی، الشباب اس کا انتظا ر کر رہی ہوگی۔