بین الاقوامی برادری وسطی اور جنوبی صومالیہ کے بدلتے ہوئے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان علاقوں میں الشباب پسپا ہو رہی ہے اور صومالی حکومت اور افریقی یونین کے مشن کو جسے AMISOM کہتے ہیں ، بتدریج بالا دستی حاصل ہو رہی ہے ۔ غیر ملکی حکومتیں جنہیں صومالیہ کے سیاسی استحکام میں دلچسپی ہے ، کہتی ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ الشباب سے آزاد کیے ہوئے علاقوں میں بہت جلد مقامی انتظامیہ کا اختیار قائم ہو۔
صومالیہ میں اس سیاسی عمل کی حمایت کرنے والی ایک بڑی فریق امریکی حکومت ہے ۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی پُر زور حمایت کی جائے ، اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکام سے رابطوں کو بھی وسعت دی جائے ۔
صومالیہ میں امریکہ کے نمائندے جیمز سوان کہتے ہیں کہ امریکہ نو آزاد علاقوں میں مقامی نمائندوں کی تشویش اور ان کے مسائل کو سُن رہا ہے تا کہ صورت حال کو بہتر طور سے سمجھ سکے۔ ان کے الفاظ ہیں’’جن علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا گیا ہے ان کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ علاقے کے لوگوں کو خود ایسے لیڈر منتخب کرنے چاہئیں جن پر انہیں اعتماد ہو، اور یہ منتخب شدہ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو اس کمیونٹی کے مفادات کو آگے بڑھا سکیں۔‘‘
لیکن ان علاقوں میں یہ خوف موجود ہے کہ بعض افراد مقامی انتظامیہ قائم کرنے کے اس عمل کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ہائی جیک کر لیں گے۔ مثال کے طور پر بائدوا کے قصبے کو لیجیئے جو گذشتہ مہینے تک الشباب کے کنٹرول میں تھا، جب ایتھیوپیا کی فوجوں نے انہیں باہر دھکیل دیا۔ یہ کارروائی صومالیہ کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی کانفرنس سے صرف ایک روز پہلے مکمل ہوئی ۔
بائدوا سے پارلیمینٹ کے رکن کیپٹین عدن نور عدن کہتے ہیں کہ اس کارروائی کے لیے جو وقت منتخب کیا گیا ، ہو سکتا ہے کہ اس میں سیاسی مصلحت کار فرما ہو تا کہ لندن میں ہونے والے مذاکرات میں ایتھیوپیا کو زیادہ اہم رول مل سکے۔ ’’آخر ایتھیوپیا کی فوجیں لندن کانفرنس سے 24 گھنٹے پہلے ہی کیوں داخل ہوئیں؟۔ انھوں نے باکول کو جو ایتھیوپیا کی سرحدوں کے بالکل نزدیک ہے ، بائدوا سے پہلے آزاد کیوں نہیں کرایا؟ اگر آپ کسی علاقے کو آزاد کرانا چاہتے ہیں، تو اس علاقے کے بارے میں آپ کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہونا چاہیئے، خاص طور سے یہ کہ آزادی دلانے کے بعد آپ کیا کریں گے ۔ ٹی ایف جی اور ایتھیوپیا کی جانب سے اب تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔‘‘
عدن کہتے ہیں کہ نئی انتظامیہ کو کمیونٹی کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے اگر AMISOM کی فورسز تیزی سے پیش قدمی کریں اور امن قائم کر دیں۔ لیکن مختلف دھڑوں میں پہلے ہی بائدوا کے کنٹرول کے لیے کشمکش شروع ہو چکی ہے ۔
وائس آف امریکہ کو مختلف ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ ایک گروپ کی قیادت Abdifatah Gessey کے پاس ہے جنہیں صومالی پارلیمینٹ کے اسپیکر نے 2009 میں مقرر کیا تھا ۔ دوسرے گروپ کے سربراہ محمد ابراہیم ہیں جن کی عرفیت حبساد یا دی کلکٹر ہے ۔ وہ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ انھوں نے اس قصبے کو 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی کے زمانے میں آزاد کرایا تھا ۔ صومالیہ میں جو علاقے آزاد کرائے گئے ہیں، ان سب میں صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ مختلف گروپ نئی ریاستیں قائم کرنے کی کشمکش میں گرفتار ہیں۔
صومالیہ میں ایک سابق سیاسی مشیر، محمود محمد کہتے ہیں کہ وہ وفاق کے تصور کا احترام کرتے ہیں، لیکن وہ ایسی صورتِ حال کے خلاف ہیں جس میں بہت سے لوگ ایک علاقے پر کنٹرول کے دعوے دار ہوں۔’’صومالیہ کے جو لوگ بیرونِ ملک آباد ہیں، ان میں بہت سے لوگ واپس آئے ہیں اور وہ خود کو صدر کہتے ہیں۔ ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں دس صدر ہیں۔ لوگوں نے صدر کے نام کو مذاق بنا لیا ہے ۔‘‘
اتنے سارے دعویداروں کی موجودگی میں، یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سی انتظامیہ مرکزی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی قابلِ اعتماد شراکت دار بن سکتی ہے ۔
سفیر سوان کہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ایسے افراد کی ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرے گی جو مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر ریاستیں بنا رہے ہیں۔’’ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ وہ واقعی کام کر رہے ہیں اور ان کی انتظامیہ وہاں موجود ہے ۔ اگر کوئی نیروبی کے ہوٹل میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ کمپیوٹر پر کوئی نئی انتظامیہ قائم کر لے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یا عطیات دینے والے دوسرے شراکت دار اس قسم کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنا چاہتےہیں۔‘‘
جب تک ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم نہ ہو، صومالیہ کے مستقبل کا انحصار ایسے مقامی حکام پر ہو گا جو آپس کے اختلافات طے کر سکیں اور اپنی بستیوں میں ضروری سہولتیں فراہم کر سکیں۔