واشنگٹن —
افغانستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور امن مذاکرات کاروں نے امریکی صدر براک اوباما کے’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب پر اپنے ’ملے جلے ردِ عمل‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ افغان فوج کو تربیت دینے اور معاونت کے سلسلے میں امریکہ اپنی فوج کی مختصر تعداد باقی رکھنے پر تیار ہے۔
بدھ کے دِن ایک بیان میں، افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ وہ مسٹر اوباما کی تقریر کو مثبت شمار کرتے ہیں۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ باہمی سلامتی کے معاہدے پر دستخط کی کوئی ’حتمی تاریخ‘ مقرر نہیں، اور صبر اور سخت جستجو کے ذریعے، دونوں ممالک امن کی کوششوں کے آغاز میں مدد دے سکتے ہیں۔
سابق افغان وزیر اعظم، احمد شاہ احمدزئی، جو اِن دِنوں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں ہیں، ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُن کے خیال میں، افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے، بین الاقوامی فوج کا کوئی حصہ بھی تعنات نہیں رکھا جانا چاہیئے۔
احمدزئی کے الفاظ میں، ’اگر امریکی یا مغربی ممالک افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے خواہش مند ہیں، تو کسی علحیدہ سمجھوتے کی بنیاد پر ایسا کیا جانا چاہیئے؛ نہ کہ افغانستان میں موجود امریکی یا نیٹو کی افواج کی شمولیت سے۔ یہاں تک کہ، اگر فوج کے ایک چھوٹے سے دستے کو بھی یہاں باقی چھوڑنے کی بات کی گئی تو وہ وہی کریں گے جو وہ چاہتے ہیں۔ اور جو باتیں وہ کرنا چاہتے ہیں وہ افغان قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں‘۔
ایک افغان باغی گروپ کے ترجمان، غیرت بہیر نے کہا کہ امریکی افواج ’مکمل اور غیر مشروط طور پر‘ افغانستان سے چلی جائیں۔
بہیر کے بقول، ’اگر وہ باہمی سلامتی کے معاہدے (بی ایس اے) کے ذریعے افغانستان میں اپنی فوج کی محدود تعداد موجود رکھنے کا کہہ رہے ہیں، تو، میرے خیال میں، یہ ایک اور غلطی ہوگی۔ کیونکہ، اگر افغانستان میں اُن کی محدود تعداد بھی باقی رہتی ہے، تو اُن کی موجودگی ہی افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا سبب بنی رہے گی‘۔
مولانا شہزادہ شاہد، افغانستان کی ’اعلیٰ امن کونسل‘ کے ترجمان ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا سے قبل، وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ مفاہمتی عمل کا آغاز ہو۔
شہزادہ شاہد کے الفاظ میں، ’چاہے امریکی یہاں رہیں یا چلے جائیں، لوگ یہ نہیں چاہتے کہ جنگ جاری رہے۔ اس لیے، اعلیٰ امن کونسل کا خیال ہے کہ امریکیوں کا انخلا اس معاملے کا ایک جزو ہے۔ لیکن، ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے جانے سے پہلے مفاہمت اور بات چیت کا عمل شروع ہوجائے‘۔
مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ افغان فوج کو تربیت دینے اور معاونت کے سلسلے میں امریکہ اپنی فوج کی مختصر تعداد باقی رکھنے پر تیار ہے۔
بدھ کے دِن ایک بیان میں، افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ وہ مسٹر اوباما کی تقریر کو مثبت شمار کرتے ہیں۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ باہمی سلامتی کے معاہدے پر دستخط کی کوئی ’حتمی تاریخ‘ مقرر نہیں، اور صبر اور سخت جستجو کے ذریعے، دونوں ممالک امن کی کوششوں کے آغاز میں مدد دے سکتے ہیں۔
سابق افغان وزیر اعظم، احمد شاہ احمدزئی، جو اِن دِنوں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں ہیں، ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُن کے خیال میں، افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے، بین الاقوامی فوج کا کوئی حصہ بھی تعنات نہیں رکھا جانا چاہیئے۔
احمدزئی کے الفاظ میں، ’اگر امریکی یا مغربی ممالک افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے خواہش مند ہیں، تو کسی علحیدہ سمجھوتے کی بنیاد پر ایسا کیا جانا چاہیئے؛ نہ کہ افغانستان میں موجود امریکی یا نیٹو کی افواج کی شمولیت سے۔ یہاں تک کہ، اگر فوج کے ایک چھوٹے سے دستے کو بھی یہاں باقی چھوڑنے کی بات کی گئی تو وہ وہی کریں گے جو وہ چاہتے ہیں۔ اور جو باتیں وہ کرنا چاہتے ہیں وہ افغان قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں‘۔
ایک افغان باغی گروپ کے ترجمان، غیرت بہیر نے کہا کہ امریکی افواج ’مکمل اور غیر مشروط طور پر‘ افغانستان سے چلی جائیں۔
بہیر کے بقول، ’اگر وہ باہمی سلامتی کے معاہدے (بی ایس اے) کے ذریعے افغانستان میں اپنی فوج کی محدود تعداد موجود رکھنے کا کہہ رہے ہیں، تو، میرے خیال میں، یہ ایک اور غلطی ہوگی۔ کیونکہ، اگر افغانستان میں اُن کی محدود تعداد بھی باقی رہتی ہے، تو اُن کی موجودگی ہی افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا سبب بنی رہے گی‘۔
مولانا شہزادہ شاہد، افغانستان کی ’اعلیٰ امن کونسل‘ کے ترجمان ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا سے قبل، وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ مفاہمتی عمل کا آغاز ہو۔
شہزادہ شاہد کے الفاظ میں، ’چاہے امریکی یہاں رہیں یا چلے جائیں، لوگ یہ نہیں چاہتے کہ جنگ جاری رہے۔ اس لیے، اعلیٰ امن کونسل کا خیال ہے کہ امریکیوں کا انخلا اس معاملے کا ایک جزو ہے۔ لیکن، ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے جانے سے پہلے مفاہمت اور بات چیت کا عمل شروع ہوجائے‘۔