رسائی کے لنکس

مصیبت کے وقت صبروضبط کا مظاہرہ: جاپانی خطے میں خاموشی طاری


.
.

’روٹ اِن‘ کے سامنےکی گزر گاہ زلزلے کےباعث استعما ل کے قابل نہیں ر ہی۔ اِس کی لابی میں اب بھی ایک سرٹیفکیٹ لٹکا ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ عمارت زلزلہ پروف اعلیٰ معیارکے عین مطابق تعمیر کی گئی ہے

جاپان کے ٹوہوکو علاقے میں خاموشی طاری ہے۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں گذشتہ جمعے کو 9.0شدت کے زلزلے نے سخت تباہی پھیلائی، زلزلے کے بعد تباہ کُن سونامی آئی جس کے باعث ایک نیوکلیئر پاور تنصیب کو نقصان پہنچا جس سے تابکاری کے اثرات پھوٹ پڑے۔

نقل و حمل کے ذرائع یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا پھروہ تعطل کا شکار ہیں، رسد کے بیش بہا ذخائر جو قدرتی آفت میں بچ گئے تھے وہ تیزی سےغائب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب سڑکوں کی مرمت توہو چکی ہے لیکن جوہری توانائی کی تباہ حال تنصیب کے نزدیک سے ٹرک ڈرائیور تک گزرنے سے کتراتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نامہ نگار اسٹیو ہرمن لیک ہوتے ہوئے نیوکلیئر پاور ری ایکٹروں اور فیوئل راڈزکے اثر سے محفوظ فاصلے پر رہائش پذیر ہیں، تاہم بدھ کے روز فوکوشیما کے دوبڑے شہروں میں تابکاری عام درجے سے خاصی زیادہ بتائی جاتی ہے۔

نامہ نگار نے بتایا ہے کہ وہ زلزلے کے ایک روز بعد یعنی ہفتے کے دِٕن سے وہیں پر ہیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے بہت ہی تھوڑے ریستوران اور اسٹور کھلے ہوئے ہیں۔ اور جو کھلےہوئے بھی ہیں اُن کےپاس فروخت کے لیے ناکافی اشیاٴ موجود ہیں۔

کچھ ہوٹل خصوصی کھانے بیچ رہے ہیں جیسا کہ بھگوئی ہوئی پھلیاں ، دہی اور شوربے والا سالن۔

وہ بتاتے ہیں کہ منگل کو اُنھوں نے دوپہر کا کھانا کھایا جس پر 1500ین خرچ آئے ۔ ہفتے میں دو مرتبہ وہ رات کے کھانے میں ’ڈزاسٹر سوشی سیٹ‘ تناول کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خصوصی طور پررپورٹنگ کے پریشان کُن دِنوں میں اُنھوں نے مچھلی اور روایتی چاول کی شراب ، جو ابھی بھی وافر مقدار میں موجود ہے، اُس کے چند کپ پیئے۔

اِس ہفتے کے کچھ کھانوں میں صرف ’اونیگری‘ موجود تھی، جو دراصل چاولوں کا پیڑا ہوتا ہے جسے سمندر کی خودرو گھاس پھوس سے لپٹا جاتا ہے۔

اسٹیو بتاتے ہیں کہ زیادہ تر ہوٹل بند ہیں، کچھ میں بجلی تو ہےلیکن پانی موجود نہیں ہے۔
یہاں ’روٹ اِن‘ کے سامنےکی گزر گاہ زلزلے کےباعث استعما ل کے قابل نہیں ر ہی۔ اِس کی لابی میں اب بھی ایک سرٹیفکیٹ لٹکا ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ عمارت زلزلہ پروف اعلیٰ معیارکے عین مطابق تعمیر کی گئی ہے۔

کوری یاما اور دیگر مقامات پر ہوٹلوں کی وینڈنگ مشینیں جمعےتک خالی ہو چکی ہوں گی۔ شہر میں کئی روز سے صفائی نہیں ہوئی۔ مختصر سا عملہ موجود ہے۔ وہ زیادہ تر وقت فون کالز کا جواب دیتے ہوئے گزار دیتے ہیں جِن میں اکثر و بیشتر بے گھرہونے والےافراد، بے سرو سامانی کا شکار لوگ اور صحافی ہوتے ہیں، جِنھیں بتایا جاتا ہے کہ ہوٹل میں رہائش کی مزید گنجائش نہیں ہے۔

درحقیقت ، عملی طور پر ہوٹل سارے کا سارا خالی ہی ہے۔

روزانہ ہرمن اور اُن کے ایک دوسرے ساتھی امریکی رپورٹر سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ کب تک وہاں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہوٹل والوں کو اِسے بند کرنے کی فکر لاحق ہے لیکن وہ اُنھیں باہر نکالنا نہیں چاہتے۔
اُن کے الفاظ میں، ہوٹل کے بغیر ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پر ٹھہرنا ہوگا یا پھر پناہ گزینوں کی مراکز پر پناہ لینی ہوگی جہاں پہلے ہی زیادہ لوگ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔

یہاں تیل نایاب چیز ہے۔ فوکوشیما –ون نیوکلیئر پاور پلانٹ کے 20کلومیٹر کے محفوظ قرب و جوار میں سڑکوں پر روزانہ چند ہی گاڑیاں چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

یہاں سے سینڈائی شمال میں واقع ہے اور تین گھنٹے کی سڑک کی مسافحت پر ہے۔ سونامی کے بعد وہاں سبزیوں کی قیمتیں دوگنی ہوچکی ہیں۔
یہاں کے زیادہ تر تاجر مصیبت کے وقت اشیا کی زیادہ قیمتیں وصول کرنے کو نامناسب حرکت، انہونی بات اور غیر جاپانی رویہ گردانتے ہیں۔
روایتی جاپانی صبرو تحمل اپنے مکمل جلوے کے ساتھ عیاں ہے۔ چند ہی لوگوں میں کسی تلخی یا مایوسی کا شائبہ ہوگا تاہم کھل کر غصے کا اظہار کبھی نہیں ملے گا۔

اشیا اور خدمات کی عدم دستیابی کو خوش دلی سے قبول کرنے والے لوگ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد وہ دردناک دِن آنے والا ہے جو جنگ عظیم دوئم میں جاپانی شکست کے فوری بعد دیکھا گیا تھا، جب بلیک مارکیٹ کا دور دورہ تھا اور اشیا راشن پر ملا کرتی تھیں۔

ٹکیشی موناکاتا نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور اُن کی مسکراہٹ ابھی باقی ہے۔ معلوم کرنے پر بتاتے ہیں کہ وہ ابھی بھی جاپان اور جاپانی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اُنھیں توقع ہے کہ المیئے کے یہ لمحات جلد ختم ہوجائیں گے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ اگر اس دوران’ میں مر بھی گیا تو کوئی بات نہیں۔ ‘

وائس آف امریکہ کے اسٹیو ہرمن سیول میں رہتے ہیں اورشمال مشرقی ایشیا میں رپورٹنگ سے وابستہ ہیں۔ وہ 18برس تک جاپان میں رہ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG