پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے رائے شماری سے قبل ہی مسترد کیے جانے کے بعد حزبِ اختلاف نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کے بقول اپوزیشن جماعتیں اس صورتِ حال میں نہایت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
حزبِ اختلاف نے سپریم کورٹ کے سامنے مؤقف رکھا ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے مسترد کرنا خلاف قواعد اور آئین سے متصادم ہے، لہذٰا سپریم کورٹ اس حوالے سے فیصلہ سنائے۔
اتوار کو جب ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کی رولنگ دی تو حزبِ اختلاف کے اراکین اپنی نشستوں پر خاموش بیٹھے رہے اور کسی قسم کا فوری ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں عددی اکثریت رکھنے والی حزبِ اختلاف محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کسی قسم کی محاذ آرائی ان کے لیے مفید نہیں رہے گی۔
تحریکِ انصاف کے برعکس جلسے جلوس نہ کرنے پر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسے کسی اقدام کو سپریم کورٹ پر دباؤ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے لہذا حزبِ اختلاف اس سے اجتناب کیے ہوئے ہے۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ تین اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ حزب اختلاف کے لیے حیرت انگیر تھی اور انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ آرٹیکل پانچ اے کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے لیے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ حیرت سے بڑھ کر ایک دھچکہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد وزیرِ اعظم کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے نے بھی اپوزیشن جماعتوں کو حیران کیا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت اپنی اتحادی جماعتوں اور منحرف اراکین کو منانے میں ناکام رہی لہذا انہیں معلوم تھا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کروائی تو وزیرِ اعظم عمران خان کو شکست ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اب صورتِ حال کا تمام تر دارومدار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہوگا۔ اگر عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئےاسمبلیاں بحال کردیں تو تحریکِ انصاف کے لیےمشکل صورت حال پیدا ہو گی۔ بصورتِ دیگر جو بھی فیصلہ آیا وہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے پریشان کن ہو گا۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اپنی حکمت عملی رکھتی ہیں، لیکن اس وقت معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے وہ کوئی اقدام اٹھانے یا بیان بازی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آئینی نکتے پر فیصلے کے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون و آئین اور صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ اس پر جلد از جلد فیصلہ آئے یا کم از کم عبوری حکم نامہ آئے۔
حزب اختلاف انتخابات پر تذبذب کا شکار کیوں؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد حزبِ اختلاف کو انتخابات میں مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وقت سے پہلے انتخابات کرائے جائیں۔
حزب اختلاف کا مؤقف ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی متنازع انتخابی اصلاحات کو درست کیے بغیر وہ انتخابات میں نہیں جانا چاہتے۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف عام انتخابات کے لیے تیار ہے لیکن یہ انتخابی اصلاحات اور قانونی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہونے چاہئیں نہ کہ دھاندلی کے لیے بنائے گئے نظام کے ذریعے۔
مبصرین کے مطابق حزبِ اختلاف کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے انتہائی اقدام پر حزبِ اختلاف کا ردِعمل محتاط دکھائی دیتا ہے۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ انتخابات کروانے کا مطالبہ حزبِ اختلاف کا تھا تاہم اس وقت جو آئینی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے اس کو حل کیے بغیر انتخابات کی طرف نہیں جایا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا اندازہ ہے کہ بیرونی سازش کے ذریعے حکومت کے خاتمے کا ان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے اور اس بنا پر وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائیں گے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر فوج کی جانب سے وضاحت آنے پر یہ تاثر زائل ہوجائے گا۔
تجزیہ کار مظہر عباس بھی کہتے ہیں کہ بیرونی سازش میں حزبِ اختلاف کے ملوث ہونے کے عمران خان کے بیانیہ پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وضاحت سامنے آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کونسل میں اس معاملے پر ہونے والی بات چیت سامنے آنے پر حکومت کا غداری کا بیانیہ اپنی جگہ کھو دے گا۔
اتوار کو قومی اسمبلی میں کیا ہوا تھا؟
پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اتوار کو ایوان کی مختصر کارروائی کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد کو بغیر ووٹنگ کروائے غیر آئینی قرار دے کر مستر کر دیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اس لیے نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اسے مبینہ طور پر ایک بیرونی ملک کی حمایت حاصل ہے۔
اس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت نے پاکستان کی قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔