لندن —
ذہنی دباؤ اگرچہ ایک انفرادی عمل ہے، لیکن علم نفسیات سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ آج ایک متعدی مرض کی صورت اختیار کر گیا ہے، جو باآسانی ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق، کسی شخص کو پریشان صورتحال میں دیکھنا ہمارے جسم میں دباؤ کے ہارمون کی زیادہ مقدار پیدا کرنےکا سبب بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ذہنی دباؤ کو آج کل صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں دیگر نفسیاتی امراض، افسردگی، بے چینی اور اختلاج قلب جیسے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ذہنی دباؤ کو آج کل صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں دیگر نفسیاتی امراض، افسردگی، بے چینی اور اختلاج قلب جیسے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے محقیقین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ کے اثرات کوصرف اس وقت محسوس نہیں کیا جاتا ہے جب کوئی ساتھی یا قریبی عزیز مصیبت میں مبتلا تھا۔ بلکہ، ٹی وی ڈرامے کے کردار یا کسی اجنبی کی پریشانی بھی دیکھنے والے کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیتی ہے۔
محقیقین نے کہا ہے کہ جدید معاشرے میں ذہنی دباؤ کسی متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو رہا ہے۔ حتی کہ، پرسکون زندگی گزارنے والے افراد بھی ہر روز ملازمت پریا گھرمیں ٹی وی شوز کے ذریعے کسی نا کسی ذہنی دباؤ میں مبتلا شخص سے رابطے میں رہتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ویرونیکا اینگرٹ اس تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ہیں کہتی ہیں کہ 'ذہنی دباؤ یا اسٹریس ایک وقتی کیفیت کا نام ہے جو دائمی مرض کی صورت اختیارکر لینے پر ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ ،'اگرچہ، ارتقائی ایام میں جسم میں دباؤ کے ہارمون کارٹی سول کا زیادہ مقدار میں اخراج مثبت مقاصد کے لیے تھا، اسوقت غیر محفوظ ماحول اور خطروں کا مقابلہ کرنے کے لیے جسم میں اضافی اسٹریس ہارمون کارٹی سول کی ضرورت تھی جو انھیں متحرک رکھتا تھا۔'
سائنسی رسالے'سائیکونیورواینڈروکرینولوجی' کے ایک مضمون کے مطابق، ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم میں ہر وقت دباؤ کے ہارمون کی سطح کا زیادہ ہونا صحیح نہیں ہوتا۔ اس سے ہماری قوت مدافعت پر برا اثر پڑتا ہے۔
'میکس پلینک انسٹیٹیوٹ' سے وابستہ محقیقین نے ذہنی دباؤ ناپنےکے ایک ٹیسٹ کے دوران شرکاء سے ریاضی کے مسائل حل کروائےاوران کی کارکردگی کو ایک انٹرویو کے دوران بھی جانچا گیا۔
نتیجے سے معلوم ہوا کہ صرف 5 فیصد شرکاء ٹیسٹ کے دوران پرسکون رہے جبکہ دیگر شرکاء کے جسم میں دباؤ کے ہارمون کارٹی سول کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا۔
علاوہ ازیں، مبصرین جنھیں ٹیسٹ دکھایا گیا اور جو براہ راست دباؤ سے متاثر نہیں تھے ان میں سے بھی 26 فیصد افراد نے دباؤ کے اثرات کو محسوس کیا اور ان کے جسم کے اندر بھی کارٹی سول کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تاہم، دباؤ کے اثرات کو اس وقت زیادہ شدت سے محسوس کیا گیا جب مبصرین اور شرکا آپس میں جوڑے یا ساتھی تھے۔
یہاں تک کہ اجنبی شرکاء کو پریشانی میں دیکھنے پربھی 10 فیصد مبصرین میں اسٹریس منتقل ہوا۔ اسی طرح جب مبصرین نے یک طرفہ ششے کی جانب سے شرکاء کو دیکھا تو بھی 30 فیصد نے دباؤ کے ہارمون کا مشاہدہ کیا۔
یہاں تک کہ اجنبی شرکاء کو پریشانی میں دیکھنے پربھی 10 فیصد مبصرین میں اسٹریس منتقل ہوا۔ اسی طرح جب مبصرین نے یک طرفہ ششے کی جانب سے شرکاء کو دیکھا تو بھی 30 فیصد نے دباؤ کے ہارمون کا مشاہدہ کیا۔
اورجب یہی اسٹریس ٹیسٹ ویڈیو ٹرانسمیشن کے ذریعے دکھایا گیا تو بھی 29 فیصد مبصرین میں کارٹی سول کی سطح میں اضافے کے لیے کافی تھا۔
ڈاکٹر ویرونیکا نے کہا کہ ذہنی دباؤ کے اثرات کو صرف ساتھی کی پریشانی پر ہی محسوس نہیں کیا گیا بلکہ، تحقیق سے یہ پتا چلا کہ ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مصائب کی عکاسی پیش کرنے والے کرداروں سے بھی ناظرین میں اسٹریس منتقل ہوتا ہے۔
انھوں نے نتیجے کے حوالے سے کہا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی غمگساری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کو اسٹریس ہارمون کارٹی سول کے اخراج کی شکل میں جانچنا ہمارے لیےبھی کافی حیران کن رہا ۔'