واشنگٹن —
بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم وادی کشمیر میں ہفتے کو 'یومِ شہدا' منایا گیا جب کہ اس موقع بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی اپیل پر مکمل ہڑتال رہی۔
'یومِ شہدا' 13 جولائی 1931ء کو سری نگر میں پیش آنے والے سانحے کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر کے اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے فوجیوں کی فائرنگ سے 23 کشمیری مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ واقعہ سری نگر کی مرکزی جیل کے باہر پیش آیا تھا جہاں ایک انگریز سیاح کے غیر مقامی خانساماں عبدالقدیر خان کے خلاف غداری اور کشمیریوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف بھڑکانے کے الزام میں 'ان – کیمرہ' مقدمہ چلایا جارہا تھا۔
ہلاک ہونے والے مسلمان مقدمے کی کاروائی جاننے کی غرض سے جیل کے باہر جمع تھے جب وہ ڈوگرہ فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
اس واقعے کے بعد پوری وادی میں مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا جس کے دوران میں مزید کئی مسلمان مارے گئے تھے۔
واقعے کے بعد سے ہر سال پاکستان اور ہندوستان کے درمیان منقسم کشمیر کے باشندے اور بیرونِ ملک مقیم کشمیری 13 جولائی کو 'یومِ شہدا' کے طور پر مناتے ہیں۔اس موقع پر وادی کے دونوں حصوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ہفتے کو سانحے کی 82 ویں برسی کے موقع پر علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد 'کل جماعتی حریت کانفرنس' کی اپیل پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دکانیں، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہے۔
اس موقع پر وادی بھر میں اور خصوصاً دارالحکومت سری نگر کے اس قدیم علاقے میں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جہاں 'مزارِ شہدا' نامی قبرستان میں 13 جولائی کو مرنے والے دفن ہیں۔
سری نگر سے 'وائس آف امریکہ – اردو سروس' کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے سری نگر کے شہریوں کو اپنے گھروں میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کا انتباہ دیا تھا۔
بھارتی پولیس نے علیحدگی پسند رہنمائوں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو جمعے کو ہی ان کے گھروں میں نظر بند کردیا تھا تاکہ وہ 'یومِ شہدا' کے موقع پر احتجاجی جلوسوں کی قیادت نہ کرسکیں۔
بھارتی کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ کے ارکان نے پولیس کے سخت پہرے میں ہفتے کو مزارِ شہدا پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔
'یومِ شہدا' 13 جولائی 1931ء کو سری نگر میں پیش آنے والے سانحے کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر کے اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے فوجیوں کی فائرنگ سے 23 کشمیری مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ واقعہ سری نگر کی مرکزی جیل کے باہر پیش آیا تھا جہاں ایک انگریز سیاح کے غیر مقامی خانساماں عبدالقدیر خان کے خلاف غداری اور کشمیریوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف بھڑکانے کے الزام میں 'ان – کیمرہ' مقدمہ چلایا جارہا تھا۔
ہلاک ہونے والے مسلمان مقدمے کی کاروائی جاننے کی غرض سے جیل کے باہر جمع تھے جب وہ ڈوگرہ فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
اس واقعے کے بعد پوری وادی میں مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا جس کے دوران میں مزید کئی مسلمان مارے گئے تھے۔
واقعے کے بعد سے ہر سال پاکستان اور ہندوستان کے درمیان منقسم کشمیر کے باشندے اور بیرونِ ملک مقیم کشمیری 13 جولائی کو 'یومِ شہدا' کے طور پر مناتے ہیں۔اس موقع پر وادی کے دونوں حصوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ہفتے کو سانحے کی 82 ویں برسی کے موقع پر علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد 'کل جماعتی حریت کانفرنس' کی اپیل پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دکانیں، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہے۔
اس موقع پر وادی بھر میں اور خصوصاً دارالحکومت سری نگر کے اس قدیم علاقے میں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جہاں 'مزارِ شہدا' نامی قبرستان میں 13 جولائی کو مرنے والے دفن ہیں۔
سری نگر سے 'وائس آف امریکہ – اردو سروس' کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے سری نگر کے شہریوں کو اپنے گھروں میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کا انتباہ دیا تھا۔
بھارتی پولیس نے علیحدگی پسند رہنمائوں سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو جمعے کو ہی ان کے گھروں میں نظر بند کردیا تھا تاکہ وہ 'یومِ شہدا' کے موقع پر احتجاجی جلوسوں کی قیادت نہ کرسکیں۔
بھارتی کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ کے ارکان نے پولیس کے سخت پہرے میں ہفتے کو مزارِ شہدا پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔