|
امریکہ نے کہا ہے کہ ٹیکساس میں غزہ میں جنگ بندی کے حامی مظاہرین پر تشدد کے واقعے کی مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں تاہم یہودی مخالف یا اسلام مخالف بیانات ناقابل قبول ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے معمول کی بریفنگ میں کہا، ٹیکساس کے واقعے کےبارے میں انتظامیہ مزید معلومات حاصل کر رہی ہے۔ پرامن احتجاج یقیناً قابل قبول ہے۔
تاہم انہوں نے کہا ہم امریکیوں کو ان کے پہلی ترمیم کے حق کا اظہار کرنے اور ان کی رائے کو پرامن غیر متشدد طریقے سے سننے کی پوری طرح حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن نفرت انگیز تقریر پرتشدد بیان بازی، بشمول یہودی مخالف یا اسلام مخالف ریمارکس، امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
اغزہ جنگ کے خلاف امریکہ کے تعلیمی اداروں میں گزشتہ کئی روز سے ہونے والا احتجاج بدستور جاری ہے اور پولیس نے ریاست کیلی فورنیا اور ٹیکساس میں مزید طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ مظاہروں کے دوران طلبہ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
اسی طرح ریاست ٹیکساس کی ایک یونیورسٹی میں پولیس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں میں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں پولیس اور طلبہ کے درمیان بدھ کی صبح کشیدگی برقرار رہی اور مظاہرین نے کیمپس کے وسط میں بازوؤں میں بازو ملائے ایک حلقہ بنا لیا تھا۔ لیکن سورج ڈھلتے ہی پولیس نے کسی بھی مزاحمت کے بغیر طلبہ کو حراست میں لینا شروع کیا۔
طلبہ کی گرفتاری کے عمل کے دوران فضا میں ہیلی کاپٹروں کے اڑنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔
کولمبیا یونیورسٹی میں گزشتہ ہفتے 100 سے زائد طلبہ کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والا احتجاج امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں تک پھیل گیا ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، اسرائیل کو امریکہ ہتھیاروں کی فراہمی کی روک تھام اور اسرائیل سے مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔
کچھ یہودی طلبہ کا کہنا ہے کہ مظاہروں نے یہود دشمنی کی شکل اختیار کر لی ہے اور انہیں کیمپس میں قدم رکھنے سے خوفزدہ کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بدھ کو جاری ایک ویڈیو بیان میں امریکہ کے تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں پر شدید تنقید کی۔
نیتن یاہو نے کئی یونیورسٹی کے صدور کے ردِ عمل کو 'شرمناک' قرار دیتے ہوئے امریکی ریاستی، مقامی اور وفاقی حکام سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
'طاقت کا مظاہرہ نہ ہوتا تو احتجاج پرامن رہتا'
یونیورسٹی آف ٹیکساس میں طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور اس دوران کوریج کے لیے موجود صحافی بھی زخمی ہوئے۔ پولیس نے فاکس سیون آسٹن سے وابستہ کیمرہ مین کو زمین پر پٹخنے کے بعد حراست میں لے لیا ہے۔
یونیورسٹی میں تیسرے سال کے طالب علم ڈین ارکوہارٹ نے پولیس کی موجودگی اور گرفتاریوں کو 'حد سے زیادہ ردِعمل' قرار دیا اور کہا کہ اگر پولیس طاقت کا مظاہرہ نہ کرتی تو طلبہ کا احتجاج پرامن رہتا۔
ارکوہارٹ کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی گرفتاریوں کی وجہ سے اب بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے والا ہے۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے طلبہ کو ایک عمارت کے اندر تیسرے دن تک روکا گیا جب کہ انتظامیہ نے کیمپس بند کرتے ہوئے کلاسز آن لائن کر دی ہیں۔
ریاست میساچوسٹس میں ہارورڈ یونیورسٹی انتظامیہ کے انتباہ کے باوجود طلبہ نے ایک ریلی نکالتے ہوئے کیمپس میں مزید 14 خیمے لگا لیے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی بھی قسم کی سرگرمی اور خیمے لگانے کے لیے اجازت لینا لازم قرار دیا تھا۔ تاہم یہ اقدامات بدھ کو یونیورسٹی کی جانب سے ہارورڈ انڈرگریجویٹ فلسطین سولیڈیریٹی کمیٹی کی معطلی کے خلاف مظاہرے نہ روک سکے۔
رواں ہفتے ہی پولیس نے نیویارک یونیورسٹی میں 133 مظاہرین کو حراست میں لیا تھا جب کہ پیر کو ییل یونیورسٹی کے ایک کیمپ سے 40 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
کولمبیا یونیورسٹی کی صدر سے استعفے کا مطالبہ
امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے بدھ کو کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا اور یونیورسٹی کی صدر منوشے شفیق سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ کیمپس میں افراتفری کو ختم نہیں کر سکتیں تو مستعفی ہو جائیں۔
اسپیکر نے کہا، ’’اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا اور اگر یہ دھمکیاں بند نہ کی گئیں تو نیشنل گارڈ کے لیے مناسب وقت ہے۔‘‘
کولمبیا یونیورسٹی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی نے نیشنل گارڈ کو طلب کرنے کی دھمکی دینے کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ انتظامیہ کی توجہ امن کی بحالی پر ہے اور اگر بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہو سکتے ہیں تو یہ ضرور کریں گے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی صدر منوشے شفیق نے کیمپس میں طلبہ کے کیمپ کو خالی کرنے کے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے بدھ تک کا وقت مقرر کیا تھا۔ تاہم انتظامیہ نے طلبہ سے مذاکرات میں توسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ مزید 48 گھنٹے تک بات چیت جاری رکھی جائے گی۔
کولمبیا کے گریجویٹ طالب علم عمر لوبٹن گرانوٹ، جنہوں نے کیمپ کے قریب اسرائیلی یرغمالوں کی تصویریں لگا رکھی تھیں، کہا کہ وہ لوگوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ حماس کی قید میں اب بھی 100 سے زائد یرغمال ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ تمام لوگوں کو انسانی حقوق کی وکالت کرتے دیکھتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کے پاس اس حقیقت کے بارے میں کہنے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہ ایک دہشت گرد تنظیم کی قید میں کئی مغوی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ فسلطینی عسکری تنظیم حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 افراد کو ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حماس کے حملے کے بعد سے شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اب تک 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں شعبہ قانون کی فلسطینی طالبہ طلا الفوقہ نے کہا کہ وہ اور دیگر مظاہرین یونیورسٹی سے مزید شفافیت چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "مجھے امید ہے کہ ہارورڈ انتظامیہ اس بات کو سنے گی جو اس کے طلباء سارا سال مانگتے رہے ہیں، جو کہ (مالی) تقسیم، انکشاف اور طلباء کے خلاف کسی بھی قسم کے الزامات کو ختم کرنا ہے۔"
بدھ کے روز تقریباً 60 خیمے کولمبیا یونیورسٹی میں لگے ہوئے تھے جو پرسکون دکھائی دے رہے تھے۔ کیمپس کے ارد گرد سیکیورٹی سخت رہی۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس نے احتجاجی نمائندوں کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ کیمپ میں صرف طلبہ ہی رہیں گے اور وہ اسے خوش آئند بنائیں گے، امتیازی یا ہراساں کرنے والی زبان پر پابندی عائد کریں گے۔
امریکی ایوان نمائنگان کی رکن الہان عمر، جن کی بیٹی گزشتہ ہفتے کولمبیا میں گرفتار ہونے والے مظاہرین میں شامل تھی، نے دن کے آخر میں ایک احتجاج میں شرکت کی۔
بدھ کے روز 80 سے زائد پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے ایک گروپ نے ایک خط پر دستخط کیے جس میں یونیورسٹی کے صدر اور دیگر منتظمین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ طلبہ کے خلاف کسی بھی قسم کے الزامات کو ختم کریں اور مستقبل میں کیمپوں کی اجازت دیں۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔
فورم