|
لاہور -- پاکستان کے شہر لاہور میں نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی پر طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے سات رُکنی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔
چیف سیکریٹری پنجاب کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی معاملے کی تحقیقات کر کے دو روز میں رپورٹ وزیرِ اعلٰی کو پیش کرے گی۔
خیال رہے کہ دو روز سے نجی تعلیمی ادارے میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اس معاملے پر پیر اور منگل کو لاہور سمیت پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ نے احتجاج کیا اور ملزم کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
احتجاج میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی جب پولیس نے پیر کو طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔
وائس آف امریکہ نے مذکورہ کالج کی دیگر طالبات اور اُن کے والدین سے مبینہ زیادتی واقعے کی تفصیلات جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن اُنہوں نے بات کرنے سے گریز کیا۔
احتجاج میں شریک نجی یونی ورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے طالبِ علم نعمان ندیم کا دعویٰ ہے کہ مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ اور اُس کی سہیلیوں کو 'پنجاب کالج' کی انتظامیہ نے کسی بھی قسم کے بیانات دینے سے روک دیا ہے۔
اُن کے بقول کالج انتظامیہ نے بچیوں کے والدین کو بھی متنبہ کیا ہے کہ وہ اِس بارے میں کسی سے کسی قسم کی کوئی بات مت کریں۔
نعمان ندیم کے مطابق مبینہ زیادتی کا واقعہ نو اکتوبر کو 'پنجاب کالج' کے حالی روڈ کیمپس میں پیش آیا۔ اُن کے بقول مبینہ زیادتی کے بعد طالبہ کو نجی اسپتال لایا گیا جس کے بعد سے متاثرہ بچی اور اُن کے والدین کا کچھ پتا نہیں ہے۔
نعمان ندیم کا کہنا ہے کہ اُنہیں جو معلومات ملی ہیں اس کے مطابق طالبہ کو مبینہ طور پر کالج کے گارڈ نے بیسمنٹ میں بلایا اور اس کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی۔
متاثرہ طالبہ نے اس کا ذکر اپنی دیگر سہلیوں سے کیا تو سب نے کالج انتظامیہ سے بات کی جنہوں نے مبینہ طور پر انہیں اس معاملے میں خاموش رہنے کی تنبیہ کی۔
احتجاج میں شریک نجی کالج ہی کے بوائز کیمپس کے ایک طالبِ علم نے دعویٰ کیا کہ کالج انتظامیہ نے تمام طلبہ کو کسی بھی قسم کے احتجاج میں شرکت سے روک دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ اور احتجاج کرنے والے دیگر طلبہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ مبینہ زیادتی واقعے کی صاف شفاف تحقیقات کی جائیں۔
طالبِ علم کے مطابق کالج انتظامیہ واقعے کو دبا رہی ہے۔ کالج انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ضروری دیکھ بھال اور مرمت کے باعث کالج بند ہے۔
طالبِ علم کے مطابق گرلز کیمپس کی طالبات نے جب گارڈ کی جانب سے مبینہ زیادتی کا شور مچایا اور متاثرہ طالبہ کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا تو کالج کی پرنسپل نے ویڈیو بنانے سے منع کر دیا اور ویڈیو بنانے والی طالبات کے موبائل فون توڑ دیے۔
مبینہ زیادتی کا واقعہ سامنے آنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب نے مذکورہ کالج کی رجسٹریشن بھی منسوخ کر دی ہے۔
پولیس کیا کہتی ہے؟
پنجاب پولیس کی اے ایس پی شہربانو نقوی کہتی ہیں کہ جس لڑکی کا نام لیا جا رہا ہے، اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہر بانو نقوی کا کہنا تھا کہ جس لڑکی کا نام لیا جا رہا ہے وہ گھر میں سیڑھیوں سے گری اور اس کے والد اور چچا نے بھی ان قیاس آرائیوں کی تردید کی ہے۔
شہربانو نقوی کہتی ہیں کہ پولیس نے پھر بھی ملزم گارڈ کو حراست میں لے لیا ہے اور کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کر لی گئی ہیں جس میں بظاہر زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو میں تین بچیاں ٹک ٹاک بنا رہی ہیں جن میں اُن کی چیخوں کی بھی آوازیں آ رہی ہیں جنہیں استعمال کر کے سوشل میڈیا پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ان تمام ویڈیوز کو فرانزک کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پولیس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔ پولیس کبھی بھی ریپ کیسز کو نہیں دباتی ہے۔
شہر بانو نقوی کہتی ہیں کہ اگر پولیس اپنی مدعیت میں بھی مقدمہ درج کرتی ہے تو اس میں قانونی پیچیدگیاں ہوں گی۔
دریں اثنا وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی پر ڈس انفارمیشن پھیلانے پر سات رُکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق مبینہ واقعے کے ذریعے سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن پھیلانے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق نجی کالج کے پرنسپل کی جانب سے دی گئی شکایت پر کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت اور وزیرِ اطلاعات پنجاب اعظمٰی بخاری کہتی ہیں کہ نجی کالج واقعہ کے حوالے سے ابھی تک کسی بچی کی جانب سے پولیس کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔
ایک بیان میں اعظمٰی بخاری کا کہنا تھا کہ مظلوم بچیوں پر سیاست چمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی کے پاس مصدقہ اطلاع ہے تو پنجاب حکومت سے شیئر کرے۔
بیان مین مزید کہا گیا ہے کہ نجی کالج کے جس گارڈ پر یہ الزام لگایا گیا ہے وہ پولیس حراست میں ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب کالج کا صوبہ بھر میں تعلیمی اداروں کا بڑا نیٹ ورک ہے۔ وائس آف امریکہ نے کالج کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
لیکن کالج انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کالج کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے کیا جانے والا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔
یاد رہے کہ سن 2012 میں اسی گروپ آف کالجز کے الحمرا آرٹ کونسل میں ہونے والے کنسرٹ کے دوران بھگدڑ مچنے سے تین بچیاں جان کی بازی ہار گئی تھیں۔ پولیس نے اس معاملے کا مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
فورم