پاکستان کے صوبہ سندھ کی دوسری بڑی جامعہ 'سندھ یونیورسٹی' میں طالبات کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کرنے کے معاملے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ملنے والی شکایت کے مطابق جامعہ کی دو طالبات نے الزام عائد کیا ہے کہ شعبہ انگریزی کے دو اساتذہ نے مبینہ طور پر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ کو لکھے جانے والے خط میں طالبات نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ایکسٹرا کلاس کے بہانے بلایا گیا اور جب وہ پہنچیں تو دونوں اساتذہ مبینہ طور پر نشے کی حالت میں تھے۔
طالبات کا کہنا ہے کہ اساتذہ نے ان کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تاہم وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب رہیں۔
طالبات کے بقول جب انہوں نے اس واقعے کی شکایت جامعہ کے وائس چانسلر سے کی تو انہوں نے تحقیقات کرنے اور ایکشن لینے کا وعدہ تو کیا لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
طالبات نے معاملے کی ایف آئی آر بھی جامشورو تھانے میں درج کرادی ہے۔
طالبات کے مطابق معاملہ سامنے آنے پر یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض افسران ان پر صلح کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جو نہ ماننے پر طالبات کے والدین کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور ایک خاتون ایس ایس پی کو تفتیشی افسر مقرر کیا ہے۔
طالبات کے مطابق اس سے قبل بھی جامعہ میں ایسے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن یہ معاملات رپورٹ نہیں ہوسکے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھیجی گئی درخواستوں پر رجسٹرار سندھ یونیورسٹی سے 7 نومبر تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔
طالبات کی جانب سے شکایتی خط چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ وزیرِ اعظم پاکستان اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بھی ارسال کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے ماہر ضیا اعوان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ادارے بھی موجود ہیں اور قوانین بھی لیکن ان اداروں کی غیرفعالیت قوانین کے اطلاق میں رکاوٹ ہے۔
ضیا اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنسی ہراساں کرنے کے اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو رپورٹ ہوتے ہیں ان پر کارروائی بہت کم کسی انجام تک پہنچتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پی آئی اے کی ایک ایئر ہوسٹس کی جانب سے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے تھے جس پر عدالت نے ایئرہوسٹس کو مکمل تحفظ فراہم کرنے اور محکمہ جاتی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں خواتین کو ہراساں کرنے کی صورتِ حال بہت زیادہ خراب نہیں لیکن حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومتی سطح پر اگرچہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزائیں ملازمت سے برخواستگی سے لے کر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہے لیکن معاشرے بالخصوص خواتین میں اس بارے میں شعور نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات اکثر رپورٹ نہیں ہو پاتے۔