جیلوں میں خواتین کی حالتِ زار پر لیے جانے والے از خود نوٹس میں سپریم کورٹ نے سیشن ججوں کو جیلوں کے معائنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ 18 ہزار قیدیوں کو مرغی کے ڈربوں میں رکھا گیا ہے۔ قیدیوں کی وین میں انسان سانس نہیں لے سکتا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو جیلوں میں خواتین کی حالتِ زار پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ وفاقی محتسب نے جیلوں میں بہتری لانے سے متعلق رپورٹ دی ہے۔ کیا جیلوں میں بہتری آئی ہے؟ وفاقی محتسب نے جیلوں کی نگرانی کے لیے سول سوسائٹی سمیت مختلف نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی دی ہے۔
وفاقی محتسب کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ نشہ کرنے والے اور ذہنی مریضوں کو الگ رکھا جانا چاہیے۔ اس وقت جیلوں میں تقریباً 18 ہزار قیدی ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18 ہزار کو جلسے میں لے کر جائیں تو لاکھوں کا مجمع بنتا ہے۔ اٹھارہ ہزار لوگوں کو آپ نے مرغی کے ڈربوں میں رکھا ہوا ہے۔
پنجاب حکومت کی وکیل عاصمہ حامد کی جانب سے نگران کمیٹیوں کے معاملے پر اعتراض اٹھایا گیا جو چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔ عاصمہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ جیلوں میں بجلی، پانی اور بستر سمیت بیشتر سہولتیں موجود ہیں۔ ضلعی جیل لاہور کے بارے میں سیشن جج کی رپورٹ موجود ہے۔ گوجرانولہ، لاہور، فیصل اباد میں قیدی گنجائش کے مطابق ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر جیل میں قیدیوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ بتایا جائے کہ کس جیل میں کتنی گنجائش ہے اور کتنے قیدی ہیں؟ اسلام آباد بڑا شہر ہے لیکن یہاں کوئی جیل نہیں بنی۔ اسلام آباد جیل کی اینٹیں لوگ اٹھا کر لے گئے۔ یہاں سے اڈیالہ جیل کتنی دور ہے؟ قیدیوں کی وین میں انسان سانس نہیں لے سکتا۔
عدالتی حکم نامے میں وفاقی محتسب سے دو ہفتوں میں جیلوں سے متعلق رپورٹ طلب کرلی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ تمام آئی جیز جیل خانہ جات وفاقی محتسب کی رپورٹ پر عمل کریں۔ جب کہ تمام سیشن ججوں کو جیلوں کے معائنے کا حکم بھی دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ تمام سیشن جج دو ہفتوں میں جیلوں سے متعلق رپورٹ دیں۔ عدالت نے اسلام آباد جیل کی تعمیر سے متعلق بھی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
پاکستان میں اداروں کے خلاف شکایات سننے کے لیے قائم ادارے وفاقی محتسب نے راولپنڈی کی سب سے بڑی جیل 'اڈیالہ جیل' میں خواتین قیدیوں کی حالتِ زار سے متعلق رپورٹ تیار کی تھی۔
وفاقی محتسب کی اس رپورٹ میں جیلوں میں خواتین کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں خواتین کے لیے تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ جیل میں سڑنے والی خواتین کو سستے اور فوری انصاف کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نوعمر لڑکیاں کپڑے چوری کرنے جیسے معمولی جرائم میں قید ہیں۔ لڑکیوں کا والدین سے رابطہ ہے اور نہ ہی انصاف ملنے کی امید۔ قیدی لڑکیوں کو کوئی قانونی مدد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ اڈیالہ میں 150 خواتین اور ان کے 59 بچے قید ہیں۔
گزشتہ سال داخلہ امور کے بارے میں پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ کہ ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رات کے وقت بدسلوکی کی جاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ اس طرح کے واقعات جیل کے عملے کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتے اور اب تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔