سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے کا نوٹس لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ نوٹس ایک مقدمے کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر عدالت نہ پہنچنے پر لیا۔
مقدمے میں وکیل ابراہیم ستی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دھرنے کے باعث وہ اپنے آفس نہیں پہنچ سکے تھے جس کی وجہ سے کیس کی تیاری نہیں کی جاسکی۔
اس پر مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 14 عوام کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے۔
فیض آباد دھرنے پر انہوں نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے کہ 'اس پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟
جسٹس فائز نے اس بارے میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد اور آئی جی پنجاب سے 23 نومبر تک رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ سے بھی تفصیلی رپورٹ مانگ لی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دھرنے کے باعث آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 19 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کون سی شریعت راستے بند کرنے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کی اجازت دیتی ہے؟ دھرنے میں استعمال کی گئی زبان کی کون سی شریعت اجازت دیتی ہے؟
سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو دو روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو جمعرات تک بتایا جائے کہ دھرنے کے خاتمے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟
دورانِ سماعت عدالتِ عظمیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بھی طلب کر لیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ وہ خود صبح 8 کے بجائے 6 بجے گھر سے نکلتے ہیں تاکہ وقت پر عدالت پہنچ سکیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام کو زورِ بازو سے نہیں بلکہ کردار سے ہی پھیلایا جا سکتا ہے۔
فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کے دھرنے کو آج منگل کو 16 واں روز ہے جس کے باعث جڑواں شہروں کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے لیے اب تک ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے ہیں اور کوئی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم 50 لاکھ افراد میں سے تقریباً پانچ لاکھ افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں جنہیں فیض آباد پر دھرنے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔