سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی نظرِ ثانی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی نا اہلی برقرار رکھی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اپیل مسترد ہونے پر پارلیمانی سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف نظرِ ثانی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کتنے ارب روپے پاکستان سے باہر لے کر گئے؟ کیا آپ کے مؤکل کو پیسہ واپس لے کر نہیں آنا چاہیے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے پیسے بچانے کے لیے باہر کمپنی بنائی، پراپرٹی خود خریدی، بچوں کی ملکیت ظاہر کرکے چھپا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین سے کہا گیا کہ دستاویزات لائیں لیکن نہیں لائے۔ کیا عوامی رہنما ایسے ہوتے ہیں؟
جہانگیر ترین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے ٹیکس پیڈ پیسہ باہر بھیجا۔ 'شائنی ویو' کمپنی کے ڈائریکٹرز کی فہرست پیش کروں گا۔ کمپنی جہانگیر ترین نے نہیں بنائی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی ان سے سیٹلمنٹ ہوگئی ہوگی۔ یہ سب فراڈ ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان سے بہت بڑی رقم بیرونِ ملک منتقل کی گئی۔ آپ کے مؤکل نے یہ رقم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے اصل مالکان جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ ہیں۔ اس کیس کو از سرِ نو نہیں سن سکتے۔
عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل کی طرف سے نئی دستاویزات پیش کرنے کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ کیس کو از سرِ نو نہیں سنا جاسکتا۔
بعد ازاں عدالت نے جہانگیر ترین کی نظرِ ثانی اپیل مسترد کرتے ہوئے نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
اس فیصلے کے بعد جہانگیر ترین تاحیات پارلیمانی سیاست سے باہر ہو گئے ہیں جب کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا کوئی عہدہ بھی نہیں رکھ سکیں گے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنے ایک فیصلے میں جہانگیر ترین کو 50 کروڑ روپے بیرونِ ملک منتقل کرنے اور آف شور کمپنی بنانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل کردیا تھا۔
فیصلے کے خلاف جہانگیر ترین نے اپیل دائر کی تھی جب کہ انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت اور تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفے دینا پڑے تھے۔