رسائی کے لنکس

شام: تشویش میں مبتلا شہریوں کے شب و روز


دمشق
دمشق

ڈیڑھ سال پہلے بشا رالاسد کی حکومت کے خلاف جو پر امن تحریک شروع ہوئی تھی وہ اب ہولناک خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکی ہے

شام کے درالحکومت کے نواحی علاقوں میں جنگ جاری ہے۔لیکن، شہر میں رہنے والے خطرات کے با وجود، کسی نہ کسی طرح اپنے شب و روز گذار رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار الزبیتھ اروٹ آج کل دمشق میں ہیں۔ جب وہ وہاں لوگوں کو انٹرویو کرتی ہیں تو ایک سرکاری عہدے دار موجود ہوتا ہے ۔

دلہن زرق برق عروسی لباس میں ملبوس ہے۔ فضا میں موسیقی سے بارات کی آمد کا اعلان ہورہا ہے ۔ دولہا اور دلہن ایک ہوٹل کے ہال میں اپنی شادی کا جشن منا رہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے، بیشتر لوگوں کے ذہن سے گولہ باری اور دھماکوں کی آواز محو ہو جاتی ہے ۔

ڈیڑھ سال پہلے بشا رالاسد کی حکومت کے خلاف جو پُر امن تحریک شروع ہوئی تھی وہ اب ہولناک خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن دمشق میں رہنے والے لوگ جنگ کے اثرات سے محفوظ رہےہیں جب کہ ملک کے بہت سے حصے تباہ ہو چکے ہیں۔

تا ہم، شہر میں کار بموں کے دھماکوں اور قتل کی وارداتیں ہوئی ہیں، اور جب حکومت کی طرف سےنواحی علاقوں پر گولہ باری کی جاتی ہے، اور سیاہ دھوئیں کے بادل اوپر اٹھتےہیں، تو شہری تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہو گا ۔ لوگوں کی توجہ اکثر فوری مسائل کی طرف ہو جاتی ہے، جیسے بجلی کا منقطع ہو جانا، گیس اور تیل کی قلت، اور ملک پر عائد پابندیاں جن کے اثرات روز مرہ زندگی پر پڑ رہے ہیں۔

پرانے دمشق کی حمادیہ مارکٹ میں، اسکارف فروخت کرنے والا دوکاندار اپنے سامان کو ترتیب سے لگا رہا ہے اور کسی گاہک کا منتظر ہے ۔

وہ کہہ رہا ہے کہ بحران جیسی صورتِ حال ہے ۔ گاہکوں کومتوجہ کرنے کے لیے اس نے قیمتیں کم کر دی ہیں، لیکن لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے اور بہت کم بِکری ہو رہی ہے ۔ پابندیوں کی وجہ سے نیا مال نہیں آ سکتا ۔ اس لیے در آمد شدہ چیزوں کو اسٹاک بہت کم ہو گیا ہے ۔

حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اس کے خاتمے کے بارے میں وہ کوئی پیشگوئی کرنا نہیں چاہتا اور اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہے۔
وہ بس یہ کہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھوں میں ہے ۔

لیکن اس شہر میں بھی جو حکومت کے کنٹرول میں ہے، تبدیلی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ حکمراں بعث پارٹی کے پرانے ارکان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔

بسام ابو عبداللہ دمشق میں ایک سیاسی ریسرچ گروپ کے سربراہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت ختم ہو چکی ہے ۔ میں بعث پارٹی کا رکن ہوں، اور میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک پارٹی کی حکومت کا نظام ختم ہو چکا ہے، اس لیے نہیں کہ بعث پارٹی کا موقف غلط ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ نظام کام نہیں کر رہا ہے ۔

یہ ناکامی کا اعتراف ہے لیکن حکومت کے بہت سے مخالفین کی نظر میں، یہ اعتراف بہت دیر سے کیا گیا ہے ۔

عبداللہ صدارتی انتخابات کی بات کرتےہیں جو سنہ2014 میں ہوں گے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ اتنے کم وقت میں ملک کو میدانِ جنگ سے بیلٹ باکس تک کیسے لایا جائے گا۔

شروع ہی سے حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ ملک میں ہونے والے ہنگاموں میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے ۔ اس کے بعد ملک میں جو افرا تفری پھیلی، اس میں جزوی طور پر یہ بات صحیح نکلی۔ اب حزبِ اختلاف بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس کے دس فیصد جنگجوؤں کا تعلق بیرونی ملکوں سے ہے ۔ بہت سے جنگجو ؤں میں عسکریت پسندی کا اسلامی رجحان غالب ہے۔ یہ بات ان لوگوں کو نا پسند ہے جنھوں نے اس کثیرالمذاہب ملک میں سخت گیر لیکن سیکولر حکومت سے فائدے اٹھائے ہیں۔

بسام ابو عبداللہ وضاحت کرتے ہیں کہ کس قسم کی تبدیلی آنی ضروری ہے ۔ ان کے الفاظ میں، ہم ایک ڈکٹیٹر شپ سے دوسری ڈکٹیٹر شپ میں چلے جائیں گے ۔ اگر یہ ڈکٹیٹر شپ ہے، تو پھر جو ڈکٹیٹر شپ آئے گی وہ اس سے بھی بد تر ہوگی، یعنی مذہبی ڈکٹیٹر شپ۔

’جب ان سے پوچھا گیا کہ درمیانی راستہ کیسے نکالا جائے، تو انھوں نے لبنان کی خانہ جنگی کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح بالآخر فریقین کے درمیان تصفیہ ہو گیا ۔ لیکن انھوں نے تسلیم کیا، کہ اس عمل میں پندرہ برس لگ گئے‘ ۔

دمشق اور اُس کے باہر رہنے والوں کے لیے جنہیں ایک ایک دن کاٹنا دوبھر ہو رہا ہے، اتنے طویل عرصے کا تصور بھی محال ہے ۔
XS
SM
MD
LG