اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کو شام میں قیام امن کے لیے رواں ہفتے سوئیزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی گئی ہے۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران کا ’’شام سے متعلق حل کا حصہ ہونا ضروری ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تہران بدھ کو ہونے والی بات چیت کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔
’’ وزیر خارجہ ظریف اور میں اس بات ہر آمادہ ہوئے کہ ان مذاکرات کا مقصد باہمی رضا مندی سے ایک بااختیار عبوری حکومت کا قیام ہے۔ اس بنیاد پر وزیر خارجہ ظریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔‘‘
عبوری حکومت کے قیام کا ہدف 2012 میں منعقدہ بین الاقوامی امن کانفرنس میں رکھا گیا،
لیکن ایران اس تجویز کو مسترد کر چکا ہے۔
کیونکہ مجوزہ عبوری انتظامیہ میں تہران کے اہم اتحادی صدر بشار الاسد کے نا ہونے کے امکانات ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین پساکی کا کہنا تھا کہ بشارالاسد حکومت کے لیے ایران کی حمایت پر واشگٹن کو’’شدید تشویش‘‘ ہے اور تہران کھلے عام کانفرنس کے اہداف کو تسلیم کرے یا اس کی مذاکرات میں شرکت کی دعوت کو منسوخ کیا جائے۔
شام کی حکومت کا ایک اور اتحادی، روس بات چیت میں ایران کی شرکت کا مطالبہ کر چکا ہے۔
بان کی مون نو دیگر ممالک کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں جن کا تعلق کسی طرح سے شام کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے شام کی حزب اختلاف کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔
شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کا اقتدار سے علیحدگی کا معاملہ مذاکرات کا حصہ نہیں اس لیے بعض ماہرین نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ یہ ہدف حاصل ہو گا اور اس بات چیت سے جنگ بندی اور بنیادی ضروریات پر مشتمل امداد کی عوام تک رسائی ممکن ہو گی۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران کا ’’شام سے متعلق حل کا حصہ ہونا ضروری ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تہران بدھ کو ہونے والی بات چیت کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔
’’ وزیر خارجہ ظریف اور میں اس بات ہر آمادہ ہوئے کہ ان مذاکرات کا مقصد باہمی رضا مندی سے ایک بااختیار عبوری حکومت کا قیام ہے۔ اس بنیاد پر وزیر خارجہ ظریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا۔‘‘
عبوری حکومت کے قیام کا ہدف 2012 میں منعقدہ بین الاقوامی امن کانفرنس میں رکھا گیا،
لیکن ایران اس تجویز کو مسترد کر چکا ہے۔
کیونکہ مجوزہ عبوری انتظامیہ میں تہران کے اہم اتحادی صدر بشار الاسد کے نا ہونے کے امکانات ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین پساکی کا کہنا تھا کہ بشارالاسد حکومت کے لیے ایران کی حمایت پر واشگٹن کو’’شدید تشویش‘‘ ہے اور تہران کھلے عام کانفرنس کے اہداف کو تسلیم کرے یا اس کی مذاکرات میں شرکت کی دعوت کو منسوخ کیا جائے۔
شام کی حکومت کا ایک اور اتحادی، روس بات چیت میں ایران کی شرکت کا مطالبہ کر چکا ہے۔
بان کی مون نو دیگر ممالک کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں جن کا تعلق کسی طرح سے شام کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے شام کی حزب اختلاف کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔
شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کا اقتدار سے علیحدگی کا معاملہ مذاکرات کا حصہ نہیں اس لیے بعض ماہرین نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ یہ ہدف حاصل ہو گا اور اس بات چیت سے جنگ بندی اور بنیادی ضروریات پر مشتمل امداد کی عوام تک رسائی ممکن ہو گی۔