انقرہ کی جانب سے جمعرات کو اس الزام کے بعد کہ شام کی حکومت نے شمالی شام میں کارروائیوں میں مصروف ترک فوجیوں پر حملہ کیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے تھے، اپنے ایف 16 لڑاکا طیاروں کو چوکس کر دیا ہے۔
مغربی سفارت کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بدھ کی رات شام کی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے حملہ کر کے پانچ سال سے جاری شام کے تنازع کو ایک خطرناک موڑ دے دیا ہے جس سے ترکی اور شام کے درمیان کسی بڑے تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
شروع میں حلب کے شمال مشرق میں واقع ایک قصبے الباب کے قریب فوجیوں کی ہلاک کا الزام اسلامک اسٹیٹ پر لگایا گیا تھا۔ لیکن بعد میں جمعرات کو ترک فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ شام کی فضائیہ اس کی ذمہ دار ہے۔ ہلاک ہونے والے فوجیوں کی میتیں ترک سرحد پر واقع قصبے کیلس منتقل کر دی گئی ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم بن علی یلدرم نے وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ کو ٹیلی فون کر کے حالات معلوم کیے ۔
ترکی کے حزب اختلاف کے راہنما کمال اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ فضائی حملہ ملک کو ایک خطرناک صورت حال میں دھکیل سکتا ہے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرے۔
اس ہفتے کے شروع میں ترک فوجی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ شام کا دفاعی ریڈار نظام اس وقت ترک طیاروں کی نگرانی کررہا تھا جب وہ اسلامک اسٹیٹ اور کرد گروپ وائی پی جی کے ٹھکانوں پر حملے کررہے تھے۔ تاہم اس دوران اس نے طیاروں پر راکٹ نہیں داغے۔ ہم شام کے اس اقدام کو انتباہ کے طور پر لے رہے ہیں۔
ایک مغربی سفارت کار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام کی فضائیہ کا حملہ ترکی کو خبردار کرنا تھا کہ وہ الباب سے دور رہے۔ لیکن اس سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے۔