|
شام کے مجسمہ ساز خالد دعوہ نے شام میں ہزاروں لوگوں کی جبری گمشدگی کی مذمت کے لیے جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر اپنےایک فن پارے کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔
گمشدہ لوگوں کے بین الاقوامی دن کے موقع پر ،گمشدہ شامیوں کے رشتے داروں نے آریوں اور ہتھوڑوں سے لکڑی پلاسٹر اور فوم سے بنے مجسمے کو توڑنے میں آرٹسٹ کی مدد کی۔
انتالیس سالہ مجسمہ ساز نے جو شام سے جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد فرانس میں مقیم ہیں ، اےایف پی کو بتایا ،’’ہم یہاں سسٹم کے خلاف احتجاج کے لیے اور یہ کہنے کے لیے آئے ہیں کہ بس اب بہت ہو گئی ۔ ہمیں سچ جاننے کا حق حاصل ہے ۔‘‘
ایک حکمراں کے طاقتور جسم والا خالد دعوہ کا بنایا ہوا ساڑھے گیارہ فٹ بلند مجسمہ’’ دی کنگ اف ہولز‘ استبدادی طاقت کےخلاف فنکار کی مذمت کا عکاس تھا۔
احتجاج کا یہ خیال انسانی حقوق کے گروپ ’سیریا کیمپین‘ نے پیش کیا تھا جس نے یہ تجویز دی تھی کہ خالد اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ز کے باہر نصب مجسمے کو ٹکڑے ٹکڑے کرد یں۔
خالد نے یہ مجسمہ 2021 میں اس ارادے سے تخلیق کیا تھا کہ وہ اسے بعد میں تباہ کردیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مجسمہ ہے جسے برقرار رکھنا مشکل ہے ۔
خالد نے 2012 میں شام کے عرب اسپرنگ نامی مظاہروں میں حصہ لیا تھا جو بڑھ کر ایک خونریز،طویل جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔
مئی 2013 کو وہ اپنے اسٹوڈیو میں حکومت کے ایک ہیلی کاپٹر کی گولیوں سے شدید زخمی ہو گئے تھے اور انہیں اسپتال سے علاج کے بعد دو ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔ جنگ کی یاد دلاتے ہوئے اس مجسمے کی ٹانگیں چہرہ اور بازو سوراخوں سے چھلنی ہیں ۔
مجسمے کے توڑے جانے کے وقت وہاں انسانی حقوق کی مہم چلانے والوں میں 34 سالہ وفا مصطفیٰ بھی شامل تھیں جنہیں اپنے والد کے بارے میں اس وقت سے کوئی خبر نہیں ملی ہے جب انہیں 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سیریا کیمپین کی سر گرم کارکن نے اے ایف پی کو بتایا ، ’’یہ مجسمہ یہاں موجود شام کےتمام خاندانوں کےلیے صرف اسد حکومت ہی کی نمائندگی نہیں کرتا، جو ہمارے عزیزوں کی حراست کی زمہ دار ہے بلکہ یہ بین الاقوامی کمیونٹی اور اقوام متحدہ کی بھی نمائندگی کرتا ہے جس نے ہمیں گزشتہ 13 سال سےناکام کیا ہے۔ اور شام میں قتل عام کو روکنے اورشام کے باشندوں کو ا ن کے بنیادی انسانی حقوق دلوانےکے لیے کوئی حقیقی کارروائی نہیں کی ہے ۔‘‘
اذیت میں مبتلا خاندان
متعدد غیر منافع بخش اداروں کے مطابق شام میں لگ بھگ ایک لاکھ لوگ حکومتی استبداد یا حکومت مخالف ملیشیاؤں کے ہاتھوں اغوا کی کارروائیوں میں غائب ہو چکے ہیں۔
چونتیس سالہ احمد حلیمی نے کہا کہ شام سے فرار ہونے سے قبل انہیں ملک کی سیکریٹ سروسز نے ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ کے طور پر گرفتار کیا اور تین سال تک جیل میں رکھا۔
۔
وہ خالد دعوہ کے ساتھ جنیوا آئے تھے تاکہ مجسمہ توڑنے میں انکی مدد کر سکیں۔
حلیمی نے کہا کہ ،’’تین سال قید کی تکلیف، تین سال کی اذیت رسانی۔۔۔ اس ایک دن کی بھی تکلیف کے برابر نہیں جو میری والدہ نے اس وقت ہر دن برداشت کی جب میں غائب ہو گیا تھا۔‘‘
حلیمی نے کہا اس وقت شا م اور دنیا بھر میں ہزاروں خاندان اور مائیں اسی تکلیف کو برداشت کر رہی ہیں۔
شام کی جنگ 2011 میں حکومت مخالف مظاہرو ں کو کچلنے کے بعد شروع ہوئی تھی اور غیر ملکی فوجوں اور جہادیوں کی شمولیت سے ایک پیچیدہ تنازعے کی شکل اختیار کر گئی جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
خالد کا کہنا ہے کہ مجسمے کے جسم پر سوراخ ان سوراخوں جیسے ہیں جو لکڑی کو کھاجانے والے کیڑوں کی وجہ سے بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ امید کی مانند ہیں کہ "ہر چیز کو کوئی نہ کوئی کھانے والا موجود ہے۔"
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم