|
ازبکستان سے ملحق افغانستان کی سرحد پر اچانک ریلوے ختم ہو جاتی ہے اور کئی نوجوان گندم یا آٹے کے بڑے تھیلے ٹرین سے ٹرک میں منتقل کرتے ہیں۔
ہر دن 3500 ٹن آٹا اور 1500 ٹن گندم شمالی افغانستان کے سرحدی قصبے حیرتان میں ریل گاڑی سے ٹرکوں پر لاد۱ جاتا ہے۔ وہاں سے یہ ٹرک جنگ زدہ ملک کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے گزر کر پورے ملک میں اشیا پہنچاتے ہیں۔
شمالی افغانستان کے سب سے بڑے شہر مزارِ شریف کو ریلوے نظام سے منسلک کرنے کے لیے ریلوے ٹریک کی مرمت کا کام جاری ہے۔ طالبان حکام کے مطابق یہ ٹریک جون تک فعال ہو جائے گا۔
یہ 75 کلو میٹر طویل ٹریک ہے جس کی بحالی طالبان حکومت کے ریلوے کے تباہ شدہ نظام کو فعال بنانے کے اہداف میں شامل ہے۔
ٹرانس افغان ریلوے کا بنیادی مقصد ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کو 700 کلو میٹر طویل ٹریک کے ذریعے کنیکٹ کرنے کا منصوبہ ہے جس کے لیے تینوں ممالک ایک ورکنگ گروپ بھی بنا چکے ہیں۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے ریلوے گزٹ انٹرنیشنل کے نیوز ایڈیٹر اینڈریو گرانتھم کا کہنا ہے کہ لوگ ٹرانس افغان ریلوے کے بارے میں 100 برس سے زائد عرصے سے بات کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ رو س، چین اور وسطی ایشیائی ممالک سے خوراک، لکڑی، ایندھن اور دیگر ساز و سامان حیرتان پہنچتا ہے۔ طالبان حکومت چاہتی ہےکہ ان کی حکومت میں ساز و سامان کی یہ نقل و حرکت ٹرین کے ذریعے ہو۔
مزار شریف میں بلخ ریلوے اتھارٹی کے سربراہ محمد شفیق کہتے ہیں کہ ٹرانس افغان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان اقتصادی راہ داری ثابت ہو گا۔
یہ ریلوے کے ان دو منصوبوں میں سے ایک ہے جس پر طالبان حکومت بہت توجہ سے کام کر رہی ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ جنگ زدہ افغانستان کو ریلوے کے ذریعے مربوط کیا جائے۔ اس سے پہلے افغانستان کی کوئی حکومت ریلوے نیٹ ورک نہیں بنا پائی ہے۔
ہیرات سے ایران کو ملانے کے لیے 200 کلومیٹر طویل ایک اور ریل کی پٹری پر کام ہو رہا ہے۔ یہ لائن افغانستان کو ایران سے ملانے کے ساتھ ساتھ سمندر اور اس کے ذریعے ترکیہ اور یورپ تک رسائی دے گی۔
اس منصوبے پر تجویز 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے 15 برس قبل سے زیرِ غور تھی۔
ریلوے کو سامان کی نقل و حرکت کے لیے تیز اور سستا ترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم افغانستان میں فی الوقت مسافر ٹرینز کا کوئی منصوبے پر غور نہیں ہے۔
اربوں ڈالر کی فنڈنگ
کابل میں ریلوے کے قومی ترجمان عبدالسمیع درانی کے مطابق پاکستان تک ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے بہت وقت درکار ہو گا۔
'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارا اندازہ ہے کہ ایک بار منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز ہونے کے بعد لائن کی تعمیر ہونے میں تین سے پانچ برس لگ سکتے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق ابتدائی اندازوں کے حساب سے اس منصوبے پر چار سے پانچ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی تاہم اس کا واضح جواب نہیں دیا کہ اس سرمائے کا انتظام کیسے ہو گا۔
عبدالسمیع درانی کہتے ہیں کہ اس کے لیے طالبان حکومت مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں سے بات چیت کر رہی ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد غیر ملکی سرمائے کی ترسیل رک گئی ہے کیوں کہ ان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
ریلوے امور کے ماہر گرانتھم کا کہنا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر صرف پانچ سال میں ریلوے ٹریک کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا ہے کہ اہداف استعداد سے بہت زیادہ ہیں اور کابل کو اس کے لیے غیر ملکی مالیاتی اور تیکنیکی مدد درکار ہو گی۔
گرانتھم کے مطابق سیکیورٹی اور تحفظ کے مسائل کی وجہ سے ممکنہ طور پر مغربی کمپنیاں اس منصوبے میں دل چسپی نہیں لیں گی۔
تاہم ازبکستان اور ترکمانستان جیسے وسطی ایشیائی ممالک پہلے ہی افغانستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ایران سمیت دیگر ممالک بھی اس میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
سمندر تک رسائی
گرانتھم کے مطابق اگر ایران مدد کرے تو ہرات سے ایران کے درمیان ریل کی پٹری بچھانا ایک قابلِ عمل منصوبہ ہے۔
گزشتہ اتوار اس پٹری کی تعمیر کے آخری مرحلے کا کام شروع ہو چکا ہے۔
عبدالسمیع درانی کا دعویٰ ہے کہ 47 کلو میٹر کے سیکشن پر پانچ کروڑ 30 لاکھ کی لاگت سے دو برس کے اندر کام مکمل ہوجائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ریلوے لائن پر کام مکمل ہونے سے خشکی میں گھرے افغانستان کو سمندر تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور اس طرح یہ بین الاقوامی تجارت کے سمندری گزرگاہوں سے منسلک ہو جائے گا۔ ان کے بقول اس سے افغانستان کی معیشت پر غیر معمولی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریلوے لائن جتنے کلو میٹر بڑھے گی ہمارے دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات بھی اتنے ہی بڑھیں گے۔
منصوبے کے لیے فنڈنگ کے علاوہ پٹری کے مختلف گیج بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یورپ، سابق سوویت ممالک اور پاکستان میں پٹری کے الگ الگ گیج ہیں۔
اس خبر کی معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم