صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ اباد کی جیل میں مبینہ طور پر ایک قیدی کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی پر لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد شہر کے حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
ایبٹ اباد کے ضلعی پولیس افیسر ظہور بابر آفریدی نے وائس اف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ توہینِ مذہب کے الزام میں پہلے سے قید ملزم عمران نے مبینہ طور پر قران کی بے حرمتی کی تھی جس سے دیگر قیدی مشتعل ہو گئے۔
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی لگ بھگ تین ہزار لوگ جیل کے باہر جمع ہو گئے تھے اور انہوں نے جیل کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے اُنہیں منتشر کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ملزم عمران جن کا تعلق ایبٹ آباد کے علاقے شیخ البانڈی سے ہے اور وہ پہلے ہی سے توہینِ مذہب کے الزام میں زیرِ حراست ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ ہفتے کے واقعے کے بعد ملزم کو ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
ظہور بابر آفریدی نے کہا کہ اب ایبٹ اباد شہر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
ایبٹ آباد ہی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور پریس کلب کے صدر عامر شہزاد جدون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کے بعد شہر کی صورتِ حال خاصی کشیدہ ہو گئی تھی۔ تاہم انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد اب حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
ہفتے کی شام جیل کے اندر ایک ملزم کے ہاتھوں قران کی مبینہ بے حرمتی کی اطلاع ایبٹ آباد شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مشتعل مظاہرین ملزم کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی نے ایک بیان میں مذکورہ واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ملزم کو قرار واقعی سزا دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خیبر پختونخوا میں توہینِ مذہب کے الزام میں پشاور، مردان اور چترال سمیت کئی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جیلوں میں قید ہیں۔