امریکی محکمہٴخارجہ نے مصر کے ’اجناد مصری گروپ‘ اور ’ابراہیم الربیش‘، جو جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (اے کیو اے پی) کے سینئر راہنما ہیں، دہشت گرد قرار دیا ہے۔
یہ بات محکمہٴخارجہ کی طرف سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی ہے۔
اِس سلسلے میں عالمی دہشت گردی کے ایک خصوصی انتظامی حکم نامے کا حوالہ دیا گیا ہے، جِس میں دہشت گردوں اور دہشت گردی کے لیے ابھارنے کے لیے مدد فراہم کرنے یا دہشت گردی کی حرکات کو ہدف بنانے کے لیے کہا گیا ہے۔
اعلان میں، امریکیوں کی طرف سے اجناد مصر یا الربیش کے ساتھ لین دین پر پابندی لگائی گئی ہے؛ جب کہ دونوں کے امریکہ میں موجود تمام اثاثے، یا امریکی تحویل میں کسی ملکیت کو منجمد کیا گیا ہے۔
اجناد مصر کا تعلق مصر کے ایک انہائی شدت پسند گروہ سے ہے، جو ’انصار بیت المقدس‘ سے ٹوٹا ہوا دھڑا ہے، جسے پہلے ہی ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔
اجناد مصر کو جنوری 2014ء میں تشکیل دینے کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ تب سے، یہ دہشت گرد تنظیم مصر کی افواج، سرکاری عمارات، عوامی مقامات اور یونیورسٹیوں پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہے، جن میں بے گناہ لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
ابراہیم الربیش ’جزیرہ نما عرب کی القاعدہ (اے کیو اے پی)‘ کے ایک سینئر رہنما ہیں، جنھیں غیر ملکی دہشت گرد تنظیم اور خصوصی طرز کی عالمی تنظیم کے حکم نامے کے تحت دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
وہ’ اے کیو اے پی‘ کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کی سرگرمیوں اور منصوبہ بندی کے اعلیٰ مشیر ہیں۔ سنہ 2013سے وہ ’اے کیو اے پی‘ کے شریعہ سے متعلق اہل کار؛ جب حیثیت میں وہ اس دہشت گرد تنظیم کی طرف سے حملوں کے دفاع میں بیانات دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں، اُنھوں نے عام بیانات جاری کیے ہیں، جن میں اگست 2014ء کا وہ بیان بھی شامل ہے جس میں مسلمانوں کو امریکہ کے خلاف جنگ کی تلقین کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ اکتوبر 14، 2014ء کے بعد، ابراہیم الربیش کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کی گئی تھی۔