پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر ریاض پہنچے ہیں جس کے بعد وہ متحدہ عرب امات کا بھی دورہ کریں گے۔ پاکستان کو درپیش معاشی حالات اور پالیسی سازی میں فوج کو حاصل اہمیت کی وجہ سے مبصرین اس دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
آرمی چیف ایک ایسے وقت میں یہ دورہ کررہے ہیں جب پاکستان کی معیشت کو بحرانی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ دوسری جانب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے بڑھتے ہوئے حملے اور افغانستان کی صورت حال پاکستان اور علاقائی سیکیورٹی کے لیےچیلنج کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل عاصم منیر سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ ان دوروں میں جنرل عاصم منیر دونوں ممالک کی سینیئر قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کریں گےجن میں باہمی دلچسپی، فوجی تعاون، دو طرفہ تعلقات اور سلامتی سے متعلق امور پر بات چیت ہوگی۔
مبصرین کے خیال میں آرمی چیف کا دورہ پاکستان کے لیے دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔اس کے علاوہ پاکستان میں پالیسی سازی میں فوج کو حاصل اہمیت کی وجہ سے جنرل عاصم منیر کا یہ دورہ پاکستان کی دفاعی و سفارتی پالیسی کی سمت کا تعین بھی کرے گا۔
پاکستان کو زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کے حصول کی توقع ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو دیوالیہ ہونے کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں پاکستان کو سعودی عرب سے مالی معاونت مل جائے گی۔
’دورے کا مقصد مالی معاونت کا حصول ہے!‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان شدید معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔
لیفٹینینٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ویسے تو یہ ایک طرح سے روایت رہی ہے کہ آرمی چیف ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے دورے پر سعودی عرب، عرب امارات یا چین جاتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب جانے کی ایک وجہ تو عمرے کی ادائیگی ہے اور دوسرا سبب اسلام آباد کے ریاض کے ساتھ دیرینہ دفاعی تعلقات ہیں۔
جنرل (ر)طلعت مسعود کہتے ہیں کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کی فوج کے دستے سعودی عرب میں اہم جگہوں پر تعینات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی و معاشی حالت خراب ہے تو بہت ممکن ہے کہ آرمی چیف اپنے اس دورے میں دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے کردار ادا کریں گے۔
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے اور اس مشکل سے سعودی عرب یا چین ہی بیل آؤٹ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں بہت سے امور پر بات چیت ہوگی لیکن اس کا مرکز مالی معاونت ہی ہوگا۔لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب کو پاکستان سے کیا چاہیے ہو گا اور اسلام آباد ریاض کو کیا دے سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان عرصۂ دراز سے سعودی عرب کی سیکیورٹی امور میں معاونت کرتا رہا ہے اور اب ریاض کی اسلام آباد سے کیا توقعات ہیں، پاکستان کو اسے بھی دیکھنا ہوگا۔
فوج کے سیاسی کردار پر سوال
آرمی چیف سید عاصم منیر کے دورے سےمتعلق یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا فوجی قیادت سیاست میں کردار ادا نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہی؟
جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ عسکری قیادت نے یہ اصولی فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیاسی، اقتصادی و خارجہ امور کے معاملات میں ملوث نہیں ہوگی لیکن فوج کا ان تمام امور سے فوری طور پرلاتعلق ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول، حکومت بھی فوج سے ایسے کردار کی توقع رکھتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ ہماری فوج کے ، سیاسی قیادت سے زیادہ قریبی تعلقات ہیں اور اسی اعتماد کی بنا پر حکومت نے فوج سے کہا ہوگا کہ وہ کردار ادا کریں۔
ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ کردار ادا کرنا آرمی چیف کی خواہش سے بڑھ کر مجبوری ہے۔ان کے بقول، جنرل عاصم منیر یہ کردار خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے نبھانے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اچھا لگے یا برا لیکن ان کی نظر میں جو سیاسی بیگاڑ پیدا ہوچکا ہے اسے دور کرنے کے لیے نئے فوجی سربراہ کو آستینیں چڑھا کر اپنے ہاتھ گندے کرنا ہوں گے۔
جمعرات کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورۂ سعودی عرب کے بارے میں بتایا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے تناظر میں ہے جس میں دفاعی شعبہ بھی شامل ہے۔
سعودی عرب پہنچنے کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ریاض میں ملاقات کی ہے۔
’پاکستان کو سعودی عرب کی جانب جھکاؤ دکھانا ہوگا‘
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان ماضی قریب میں سعودی عرب کے دفاعی تعاون کی توقعات پر پورا نہیں اترا ہے۔ اس لیے اب ایسا لگتا ہے کہ معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے پاکستان کو امریکہ اور سعودی عرب کی طرف جھکاؤ دکھانا ہوگا۔
حالیہ عرصے میں پاکستان خارجہ تعلقات میں سعودی عرب اور ایران، امریکہ اور چین کے درمیان اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنےکے لیے کوشاں رہا ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں مبصرین اسلام آباد کا جھکاؤ سعودی عرب اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان نہ صرف سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ چین اور سعودی عرب کے بڑھتے مراسم میں بھی مدد دے سکتا ہے۔
ان کے مطابق امریکہ بھی پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں نرمی لارہا ہے اور افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک تعاون کی راہ بھی تلاش کررہے ہیں۔
افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق بڑھتی مشکلات
آرمی چیف کا دو اہم عرب ممالک کا دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان کا ہمسائیہ ملک افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہورہا ہے۔اس کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے امن و امان کی صورت حال پر پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔
جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ طالبان کی پالیسیوں سے مسلم ممالک ناخوش ہیں۔ وہ چاہیں گے کہ طالبان ماضی کی غلطیاں دھرانے کی بجائے انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور خواتین کی تعلیم جیسے معاملات پر لچک دکھائیں۔ان کے بقول، طالبان کاسخت گیر رویہ انہیں دنیا میں تنہا کررہا ہے۔
طلعت مسعود نے کہا کہ پاکستان چاہے گا کہ افغانستان کے حوالے سے قابل تشویش معاملات سے دوست ممالک کو آگاہ کرے تاکہ طالبان پر مسلم ممالک ذریعے دباؤ ڈالا جاسکے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنے گی اور آنے والے دنوں میں افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی آئے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان کے کہنے پر کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کئے لیکن ٹی ٹی پی نےمذاکرات سے ملنے والی مہلت کو منظم ہونے کے لیے استعمال کیا۔ اب واضح ہورہا ہے کہ یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔
ہما بقائی کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان کے اندر سے بھی دباؤ پایا جاتا ہے اور اسلام آباد کو اپنی افغان پالیسی پر نظرِثانی کرنا ہوگی۔