رسائی کے لنکس

عمران فاروق قتل کیس میں تین ملزمان پر فردِ جرم عائد


عمران فاروق قتل کیس کے ملزم معظم علی خان کو اپریل 2015ء میں گرفتاری کے بعد کراچی کی ایک عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا جارہا ہے۔ (فائل فوٹو)
عمران فاروق قتل کیس کے ملزم معظم علی خان کو اپریل 2015ء میں گرفتاری کے بعد کراچی کی ایک عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا جارہا ہے۔ (فائل فوٹو)

عدالت نے تینوں ملزمان خالد شمیم، معظم اور محسن پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے، ان کی جائیداد ضبط کرنے اور ان کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔

پاکستان کی ایک عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں گرفتار تین ملزمان پر تین برس بعد فردِ جرم عائد کردی ہے۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے بدھ کو اڈیالہ جیل میں عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے عدالت میں مقدمے کا چالان پیش کیا۔

چالان میں کہا گیا ہے کہ عمران فاروق کے قتل کی سازش برطانیہ اور پاکستان میں مشترکہ طور پر تیار ہوئی جسے عملی جامہ 2010ء میں لندن میں پہنایا گیا۔

چالان میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین بھی عمران فاروق کے قتل کی سازش میں شریک ہیں۔ عمران فاروق ایم کیو ایم کی قیادت کے لیے خطرہ تھے جس کی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا۔

چالان میں بتایا گیا ہے کہ خالد شمیم اور معظم علی خان نے کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو لندن بھجوایا۔ ملزمان نے قتل کی سازش تیار کی اور اس پر عمل کے لیے ایک دوسری کی مدد اور معاونت کی۔ عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ء کو شام ساڑھے پانچ بجے لندن میں گرین لین کے علاقہ میں قتل کر دیا گیا۔

ملزمان کے اعترافی بیانات، ایف آئی آر اور جے آئی ٹی رپورٹ کو بھی چالان کا حصہ بنایا گیا ہے۔ چالان میں ایف آئی اے نے کہا ہے کہ محسن علی نے اعتراف کیا کہ اس نے عمران فاروق کو پشت سے پکڑا اور کاشف خان کامران نے وار کیے۔ کاشف خان کامران نے پہلے سر پر اینٹ سے وار کیا اور پھر چاقو سے وار کیے۔

عدالت نے تینوں ملزمان خالد شمیم، معظم اور محسن پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے، ان کی جائیداد ضبط کرنے اور قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے 8 مئی کو استغاثہ کے دو گواہوں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) شعیب اور ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرر ازم ونگ کے افسر عبدالمنان کو طلب کرلیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ء کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012ء میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے جس کے دوران وہاں سے پانچ لاکھ پاؤنڈز سے زائد رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

جون 2015ء میں پاکستانی حساس اداروں نے عمران فاروق کے قتل کے دو ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں ایم کیو ایم کے سابق مرکز 'نائن زیرو' کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

پانچ دسمبر 2015ء کو حکومتِ پاکستان نے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف درج کیا تھا۔ مقدمہ ایف آئی اے کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جس میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی، 302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

XS
SM
MD
LG