کراچی کے باسیوں نے ہفتے اور اتوار کو بارش سے تباہی کے وہ منظر دیکھے جو شاید اس سے قبل یہاں کے بزرگوں نے ستر کی دہائی میں آنے والے سیلاب کے بعد کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔ ان دنوں بھی ملیر ندی ابل پڑی تھی جس کے نتیجے میں خاندان کے خاندان اجڑ گئے تھے۔ بہت سوں کے والدین تو اب تک لاپتہ ہیں۔
نیو کراچی کے رہائشی تین بھائیوں عابد علی، شاہد علی اور جہانگیر علی نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ، ’غالباً، 1973کی بات ہے، ہم لوگ بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت بھی ایسا ہی سیلاب آیا تھا جب ملیر ندی بے قابو ہوگئی تھی۔ ہم لوگ اپنے والدین کے ساتھ کورنگی کے قریبی علاقے میں رہتے تھے۔ رات کے کسی پہر ندی کا بہاوٴ گھروں تک پہنچ گیا اور آن کے آن میں انسانی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہم تینوں بھائی اور والد تو بچ گئے، لیکن ہماری والدہ اب تک لاپتہ ہیں۔
ہفتے کی بارش نے وہ منظر پھر سے تازہ کردیئے ہیں۔
طوفانی بارش نے شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں ایک بھی سڑک سلامت رہی ہو۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سعدی ٹاوٴن، امروہہ سوسائٹی اور صفورا گوٹھ سرفہرست رہے۔ یہاں واقع برساتی نالوں سے پیر کے روز بھی تین لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان علاقوں میں آج بھی سارا دن پانی نکالا جاتا رہا۔
کراچی میں تباہی کا اصل سبب بنا کھیرتھر سیلابی ریلا اور تھڈو ڈیم کا ٹوٹنا تھا۔ یہاں سے نکلنے والے پانی نے شہر کا بنیادی ڈھانچہ ہلا کر رکھ دیا ۔ رہی سہی کثر شہر کے ندی نالوں کے اوور فلو نے پوری کردی۔ ان نالوں کی عرصے سے صفائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے جگہ جگہ کچرا، ٹین ٹبر اور پرانے کپڑوں نے نکاسی آب کو روک دیا اور پانی و کیچڑا گھروں میں گھس آئی۔
کئی گھروں میں پانی پانچ فٹ سے بھی اوپر چلا گیا۔ شہر کے کچھ علاقوں میں نکاسی آب کی ذمے داری کنٹونمنٹ بورڈز کی ہے، جبکہ باقی کو بلدیاتی ادارے دیکھتے ہیں۔ لیکن، اتفاق سے دونوں ادارے اس صورتحال سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہے ۔
مضافاتی علاقے کورنگی کراسنگ کو قیوم آباد سے ملانے والی سڑک تیسرے روز بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند رہی۔ ملیر ندی کے اطرافی علاقوں کے مکانات میں داخل ہونے والے پانی کو مکین اپنی مدد آپ کے تحت ابھی تک نکالنے میں مصروف ہیں۔
بعض علاقوں میں بارش اور سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد عارضی طور پر جھگیوں میں مقیم ہیں۔ سعدی ٹاؤن میں پانی کی سطح کچھ کم ہوئی ہے، لیکن اندرونی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
صفورا گوٹھ اور مہران ٹاؤن کے علاقوں سے بھی کافی حد تک پانی نکال لیا گیا ہے۔ تاہم، پریم ولا ون اور ٹو میں تاحال پانی موجود ہے۔ تین دن گذرنے کے باعث پانی کیچڑ میں بدل گیا ہے، جس سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ ڈاکٹرز نے متعدد بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
بے شمار علاقہ مکین اس گمبھیر صورتحال سے بچنے کے لئے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ سعدی ٹاوٴن اور امروہہ سوسائٹی کے بیشتر مکانات زیر آب آگئے تھے۔ گلشن معمار، بھٹائی آباد، گلستان جوہر، ملیر اور لیاری ندی سے ملحقہ علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا تھا ۔
وی او اے کے نمائندے نے اتوار اور پیر کو کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں تو صورتحال ابتر تھی ہی وسطی علاقوں میں حالات کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے۔ خاص کر شہر کے وسط سے ہوکر بہنے والے نالوں اور اس کے اردگرد بنے مکانات کے مکینوں نے دو راتیں خوف کے عالم میں جاگ جاگ کر گزاریں۔
تین ہٹی، لسبیلہ، پرانا گولیمار، خاموش کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد اور گجر نالے سمیت متعدد علاقوں میں رات بھر گھروں سے پانی نکالا جاتا رہا۔ بے شمار لوگوں نے اپنے بچوں اور بزرگوں کو محفوظ مقامات پر یا اپنے عزیزوں کے یہاں عارضی پناہ لی۔
نارتھ ناظم آباد، کورنگی کے پہاڑی علاقوں، حیدری، کے ڈی اے اور دیگر علاقوں میں واقع نالوں میں طغیانی آگئی۔ نالے بھر گئے اور پانی بہہ بہہ کر آس پاس کی بستیوں میں گھس گیا۔ طغیانی کے سبب کورنگی کاز وے مکمل طور پر ڈوب گیا اور آمدورفت مکمل طور پر بند ہوگئی۔
لنڈی کوتل چورنگی سے واٹر پمپ چورنگی تک سڑک اور فٹ پاتھ دونوں ہی بارش کے پانی میں غائب ہوگئے، جبکہ آج تیسرے دن یہاں سڑکوں پر بڑے بڑے گڈھے پڑ گئے۔ تارکول کی سڑکیں چند گھنٹوں کی بارش کی مار نہ سہہ سکیں اور شہر بھر کی سڑکوں پر تارکول کے نیچے دبے نوکیلے پتھر اوپر آگئے جس سے گاڑیوں کے ٹائرز بھرسٹ ہوگئے۔
شہر کی سڑکوں پر اب تک پانی کا راج ہے، جبکہ ہفتے کی صبح سے اتوار کی شام تک سڑکوں پر ہزاروں بند گاڑیاں نظر آئیں۔ بے تحاشا پانی کے سبب گاڑیاں بند ہوگئیں اور لوگ بند گاڑیوں کو وہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ نمائندے وی او اے کی گاڑی بھی دو دن تک گہرے پانی میں ڈوبی رہی جبکہ کیمرا پانی میں گرکر ناکارہ ہوگیا۔ کچھ قیمتی اشیا بھی پانی کی نذر ہوگئیں۔
نارتھ ناظم آباد، جوہر چورنگی، اولڈ سٹی ایریا، ناظم آباد، کورنگی، نارتھ کراچی اور دیگر علاقوں میں کہیں کہیں پانی اب بھی کھڑا ہے۔ جبکہ، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر جمع ہوگئے ہیں۔ پاک فوج اور نیوی کی امدادی ٹیمیں لوگوں کو علاقے سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف رہیں، جبکہ کچھ سیاسی تنظیموں نے بھی ریسکیو ٹیموں کے ساتھ ملکر امدادی کام کیا۔
حکومت کی جانب سے ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کردی گئی ہے ۔سڑکوں پر جگہ جگہ مشینوں اور سرکاری عملہ بھی کام میں مصروف رہا لیکن بارش نے جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے اس سے نمٹنے میں ابھی مزید کچھ وقت لگے گا۔
شہر کی تباہی میں بجلی کے غائب ہوجانے کے سبب بھی کئی گنااضافہ ہوا۔ کئی علاقوں میں پیر کی شام تک بجلی پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی۔ کے ای ایس سی کے مطابق شہر کے 400سے زیادہ فیڈر ٹرپ کرگئے تھے، جس کے سبب شہر اندھیرے میں ڈوبہ رہا۔
بجلی نہ ہونے کے سبب پانی کی فراہمی بھی ممکن نہ ہوسکی جس سے بڑے پیمانے پر بحران پیدا ہوگیا۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں گدلا پانی آرہا ہے جس کے بارے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانی ابال کر اور پھٹکری ڈال کر استعمال کریں۔
نیو کراچی کے رہائشی تین بھائیوں عابد علی، شاہد علی اور جہانگیر علی نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ، ’غالباً، 1973کی بات ہے، ہم لوگ بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت بھی ایسا ہی سیلاب آیا تھا جب ملیر ندی بے قابو ہوگئی تھی۔ ہم لوگ اپنے والدین کے ساتھ کورنگی کے قریبی علاقے میں رہتے تھے۔ رات کے کسی پہر ندی کا بہاوٴ گھروں تک پہنچ گیا اور آن کے آن میں انسانی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہم تینوں بھائی اور والد تو بچ گئے، لیکن ہماری والدہ اب تک لاپتہ ہیں۔
ہفتے کی بارش نے وہ منظر پھر سے تازہ کردیئے ہیں۔
طوفانی بارش نے شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں ایک بھی سڑک سلامت رہی ہو۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سعدی ٹاوٴن، امروہہ سوسائٹی اور صفورا گوٹھ سرفہرست رہے۔ یہاں واقع برساتی نالوں سے پیر کے روز بھی تین لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان علاقوں میں آج بھی سارا دن پانی نکالا جاتا رہا۔
کراچی میں تباہی کا اصل سبب بنا کھیرتھر سیلابی ریلا اور تھڈو ڈیم کا ٹوٹنا تھا۔ یہاں سے نکلنے والے پانی نے شہر کا بنیادی ڈھانچہ ہلا کر رکھ دیا ۔ رہی سہی کثر شہر کے ندی نالوں کے اوور فلو نے پوری کردی۔ ان نالوں کی عرصے سے صفائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے جگہ جگہ کچرا، ٹین ٹبر اور پرانے کپڑوں نے نکاسی آب کو روک دیا اور پانی و کیچڑا گھروں میں گھس آئی۔
کئی گھروں میں پانی پانچ فٹ سے بھی اوپر چلا گیا۔ شہر کے کچھ علاقوں میں نکاسی آب کی ذمے داری کنٹونمنٹ بورڈز کی ہے، جبکہ باقی کو بلدیاتی ادارے دیکھتے ہیں۔ لیکن، اتفاق سے دونوں ادارے اس صورتحال سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہے ۔
مضافاتی علاقے کورنگی کراسنگ کو قیوم آباد سے ملانے والی سڑک تیسرے روز بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند رہی۔ ملیر ندی کے اطرافی علاقوں کے مکانات میں داخل ہونے والے پانی کو مکین اپنی مدد آپ کے تحت ابھی تک نکالنے میں مصروف ہیں۔
بعض علاقوں میں بارش اور سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد عارضی طور پر جھگیوں میں مقیم ہیں۔ سعدی ٹاؤن میں پانی کی سطح کچھ کم ہوئی ہے، لیکن اندرونی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
صفورا گوٹھ اور مہران ٹاؤن کے علاقوں سے بھی کافی حد تک پانی نکال لیا گیا ہے۔ تاہم، پریم ولا ون اور ٹو میں تاحال پانی موجود ہے۔ تین دن گذرنے کے باعث پانی کیچڑ میں بدل گیا ہے، جس سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ ڈاکٹرز نے متعدد بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
بے شمار علاقہ مکین اس گمبھیر صورتحال سے بچنے کے لئے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ سعدی ٹاوٴن اور امروہہ سوسائٹی کے بیشتر مکانات زیر آب آگئے تھے۔ گلشن معمار، بھٹائی آباد، گلستان جوہر، ملیر اور لیاری ندی سے ملحقہ علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا تھا ۔
وی او اے کے نمائندے نے اتوار اور پیر کو کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں تو صورتحال ابتر تھی ہی وسطی علاقوں میں حالات کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے۔ خاص کر شہر کے وسط سے ہوکر بہنے والے نالوں اور اس کے اردگرد بنے مکانات کے مکینوں نے دو راتیں خوف کے عالم میں جاگ جاگ کر گزاریں۔
تین ہٹی، لسبیلہ، پرانا گولیمار، خاموش کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد اور گجر نالے سمیت متعدد علاقوں میں رات بھر گھروں سے پانی نکالا جاتا رہا۔ بے شمار لوگوں نے اپنے بچوں اور بزرگوں کو محفوظ مقامات پر یا اپنے عزیزوں کے یہاں عارضی پناہ لی۔
نارتھ ناظم آباد، کورنگی کے پہاڑی علاقوں، حیدری، کے ڈی اے اور دیگر علاقوں میں واقع نالوں میں طغیانی آگئی۔ نالے بھر گئے اور پانی بہہ بہہ کر آس پاس کی بستیوں میں گھس گیا۔ طغیانی کے سبب کورنگی کاز وے مکمل طور پر ڈوب گیا اور آمدورفت مکمل طور پر بند ہوگئی۔
لنڈی کوتل چورنگی سے واٹر پمپ چورنگی تک سڑک اور فٹ پاتھ دونوں ہی بارش کے پانی میں غائب ہوگئے، جبکہ آج تیسرے دن یہاں سڑکوں پر بڑے بڑے گڈھے پڑ گئے۔ تارکول کی سڑکیں چند گھنٹوں کی بارش کی مار نہ سہہ سکیں اور شہر بھر کی سڑکوں پر تارکول کے نیچے دبے نوکیلے پتھر اوپر آگئے جس سے گاڑیوں کے ٹائرز بھرسٹ ہوگئے۔
شہر کی سڑکوں پر اب تک پانی کا راج ہے، جبکہ ہفتے کی صبح سے اتوار کی شام تک سڑکوں پر ہزاروں بند گاڑیاں نظر آئیں۔ بے تحاشا پانی کے سبب گاڑیاں بند ہوگئیں اور لوگ بند گاڑیوں کو وہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ نمائندے وی او اے کی گاڑی بھی دو دن تک گہرے پانی میں ڈوبی رہی جبکہ کیمرا پانی میں گرکر ناکارہ ہوگیا۔ کچھ قیمتی اشیا بھی پانی کی نذر ہوگئیں۔
نارتھ ناظم آباد، جوہر چورنگی، اولڈ سٹی ایریا، ناظم آباد، کورنگی، نارتھ کراچی اور دیگر علاقوں میں کہیں کہیں پانی اب بھی کھڑا ہے۔ جبکہ، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر جمع ہوگئے ہیں۔ پاک فوج اور نیوی کی امدادی ٹیمیں لوگوں کو علاقے سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف رہیں، جبکہ کچھ سیاسی تنظیموں نے بھی ریسکیو ٹیموں کے ساتھ ملکر امدادی کام کیا۔
حکومت کی جانب سے ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کردی گئی ہے ۔سڑکوں پر جگہ جگہ مشینوں اور سرکاری عملہ بھی کام میں مصروف رہا لیکن بارش نے جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے اس سے نمٹنے میں ابھی مزید کچھ وقت لگے گا۔
شہر کی تباہی میں بجلی کے غائب ہوجانے کے سبب بھی کئی گنااضافہ ہوا۔ کئی علاقوں میں پیر کی شام تک بجلی پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی۔ کے ای ایس سی کے مطابق شہر کے 400سے زیادہ فیڈر ٹرپ کرگئے تھے، جس کے سبب شہر اندھیرے میں ڈوبہ رہا۔
بجلی نہ ہونے کے سبب پانی کی فراہمی بھی ممکن نہ ہوسکی جس سے بڑے پیمانے پر بحران پیدا ہوگیا۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں گدلا پانی آرہا ہے جس کے بارے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانی ابال کر اور پھٹکری ڈال کر استعمال کریں۔