"سینتالیس روز سے بے روزگار ہوں، اب تو دکان دار نے بھی ادھار دینا بند کر دیا ہے۔ میں کوئی سرکاری ملازم نہیں کہ مجھے ہر ماہ تنخواہ ملے بلکہ ہم روزانہ کی بنیاد پر جو کام کرتے ہیں اس کی مزدوری ملتی ہے۔"
یہ الفاظ ہیں 40 سالہ فیض اللہ کے جو چمن میں جاری تاجروں کے احتجاجی دھرنے کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ چمن میں پاک، افغان سرحد پر سفری پابندیوں کی وجہ سے 21 اکتوبر سے جاری احتجاجی دھرنے میں روزانہ ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔
دھرنے میں مقامی قبائل، سیاسی و مذہبی جماعتیں، مزدور اور تاجر شریک ہیں جو حکومتِ پاکستان کی جانب سے آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیض اللہ نے بتایا کہ وہ پاکستان، افغانستان سرحد سے متصل چمن شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں سے افغانستان کے سرحدی علاقے ویش منڈی میں سے مختلف سامان چمن لاتے ہیں اور ان کا گزر بسر اسی کاروبار سے ہے۔
فیض اللہ کہتے ہیں کہ "بے روزگاری کے باعث ان کے گھر میں اب فاقوں کی نوبت آ چکی ہے، بچے دو وقت کا کھانا اور زندگی کی ہر ضروریات مانگتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ حکومت نے ہم پر سرحد بند کر دی ہے۔"
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں سال اکتوبر میں چمن کے بابِ دوستی پر شناختی کارڈ اور اجازت نامے یا 'تذکرہ' کے بجائے پاسپورٹ کی پابندی کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہو چکا ہے۔
حکومت نے چمن سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کیوں لازمی قرار دی؟
اکتوبر ہی میں بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰ میر مرادن علی ڈومکی نے چمن کا دورہ کیا اور وہاں مقامی معززین کے ایک جرگے میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت نے یکم نومبر سے سرحد پر آمدورفت کے لیے سفری دستاویزات کی شرط لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ کے اعلان پر جرگے میں موجود افراد نے حکومتی فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا۔
اس سے قبل (لغڑی) یا چھوٹے پیمانے کے وہ تاجر جن کا قومی شناختی کارڈ چمن یا قلعہ عبداللہ کا بنا ہو یا افغانستان سے آنے والے تاجروں کے پاس صوبہ قندھار کا 'ای تذکرہ رکھنے والوں کو سرحد پر پیدل آمدورفت کی اجازت تھی۔ تاہم بلوچستان کے دیگر اضلاع کے شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کے لیے پاسپورٹ کی شرط عائد تھی۔
'پاسپورٹ کی شرط مقامی قبائل کے لیے ناقابلِ قبول ہے'
چمن میں چھوٹے پیمانے کے تاجروں کی تنظیم (لغڑی) تاجر اتحاد کے رہنما امیر محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ پرامن طور پر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ تاجروں کو کسی بھی صورت پاسپورٹ کی شرط منظور نہیں ہے۔
امیر محمد کے بقول "پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کسی نے ہمیں الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارا ایک گھر پاکستان اور دوسرا گھر افغانستان میں ہے۔ ہماری دکانیں افغانستان کی ویش منڈی میں ہیں جب کہ دونوں جانب ہمارے مشترکہ قبرستان بھی موجود ہیں۔"
تاجر اتحاد کے رہنما کے بقول "روازنہ سرحد پر 20 ہزار سے زائد لوگ کاروبار کے سلسلے میں آتے اور جاتے ہیں ان سب کا روزگار سرحد پر کاروبار سے جڑا ہے حکومت کیوں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے روزگار کرنے کے پے در پے ہے؟
تاجر پاسپورٹ کے نفاذ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
امیر محمد نے بتایا کہ "ہماری 100 ایکٹر زمین رہ گئی ہے، ہمارے قبرستان اور کئی دکانیں بھی افغانستان کے سرحدی علاقے میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہی قبرستان اور دکانوں تک جانے کے لیے کیوں پاسپورٹ بنوائیں؟ ہمارے عزیر و اقارب بھی سرحد پار موجود ہیں ہم صبح پاکستان سے بابِ دوستی کے راستے افغانستان جاتے ہیں کام کرتے، اپنوں سے ملتے ہیں اور شام کو واپس چمن میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
دھرنے کے شرکا نے باب دوستی شاہراہ کو بھی بند کر رکھا ہے جس کے باعث 800 کے قریب گاڑیاں اور کئی ڈرائیور سرحد پر پھنس گئے ہیں جس سے تاجروں کو بہت زیادہ مالی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک ڈرائیور محمد حفیظ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اور ان جیسے دیگر درجنوں ڈرائیور چمن سرحد پر پھنس گئے ہیں گاڑیاں کھڑی ہیں ان کے پاس رہائش اور کھانے پینے کے لیے پیسے موجود نہیں ہے۔ حکومت اگر دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کرے تو ہمارا مسئلہ بھی حل ہو گا۔
بلوچستان چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو ممبر بدر الدین کاکٹر نے وائس آف کو بتایا کہ چمن میں کئی گاڑیاں پھنس گئی ہیں اور بعض تاجروں نے کوئٹہ سے ہی اپنی گاڑیوں میں مال لوڈ کرنا چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چمن کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پاسپورٹ کا نفاذ ہے جس سے یہاں معاشی بدحالی پیدا ہو گی کیوں کہ حکومت نے اس کا کوئی متبادل بھی نہیں دیا۔
دھرنے کے شرکا سے حکومتی مذاکرات کیوں ناکام رہے؟
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اکتوبر میں چمن کے دورے کے دوران دھرنا منتظمین سے مذاکرات کیے تھے۔ مذاکرات کے دوران دھرنے کے شرکا نے حکومت کے سامنے پاسپورٹ کی شرط واپس لینے اور چھوٹے پیمانے کے تاجروں کے لیے خصوصی پیکج کو بحال کرنے کا مطالبہ رکھا تاہم مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔
انتیس نومبر کو گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ نے چمن کا دورہ کیا جہاں قبائلی عمائدین سے ملاقات کے دوران انہوں اپنے خطاب میں کہا کہ "ہمیں احساس ہے کہ چمن کے لوگوں کا ذریعہ معاش سرحد سے جڑا ہے اور یہاں ایسے قبائل آباد ہیں جن کے عزیر و اقارب سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں۔
گورنر بلوچستان نے عمائدین کو یقین دلایا کہ وہ متعلقہ حکام کو مقامی لوگوں کے تحفظات سے آگاہ کریں گے اور پانچ روز میں باہمی افہام و تفہیم سے مسئلے کا پائیدار حل نکالا جائے گا تاہم اس سلسلے میں اب تک کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔
بلوچستان حکومت کا مؤقف کیا ہے؟
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ سرحد پر پاسپورٹ کے شرط کو لاگو کرنے کا مقصد سرحد پار سے دہشت گردوں کے ملک میں داخلے کو روکنا ہے جب کہ اس فیصلے سے پاکستان میں افغانستان سے غیر قانونی نقل و حمل کو بھی روکنے میں مدد ملے گی۔
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ چمن سرحد پر "ون ڈاکیومنٹ پالیسی" لاگو کرنا ریاستِ پاکستان کا فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت سرحدی علاقے میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے عوام کو تجارتی سہولیات کی فراہمی، بارڈر مارکیٹوں کے قیام اور گورننس کے مسائل کا مؤثر حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے تاہم سفری دستاویزات کی پابندی کے فیصلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
فورم