وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے جمعرات کے دِٕن اخبار ’دِی نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تصدیق کرنے سے احتراز کیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما 40000کی آبادی پر مشتمل عراق کی مذہبی اقلیتوں کی امداد کے لیے فضائی کارروائی اور طیاروں کی مدد سے ہنگامی امدادی اشیاٴ گرانے کے معاملے پر غور کر رہے ہیں۔
یہ لوگ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کی طرف سے موت کی دھمکی ملنے پر گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ کے بقول، ’صورت ِحال ناگہانی آفت کے قریب پہنچ چکی ہے‘؛ اور یہ کہ، ’ہمیں اُن کی صحت اور حفاظت کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے‘۔
وائٹ ہاؤس نے عراق میں درپیش مشکل صورت حال کا ذمہ دار عراقی سیاسی رہنماؤں کی ناکامی کو قرار دیا۔
دوپہر کی بریفنگ کے دوران، ارنیسٹ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ’عراق کے مسائل کا کوئی امریکی فوجی حل موجود نہیں ہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکی فوج عراق کی سرزمین پر قدم نہیں رکھے گی۔
ارنسٹ کے بقول، سنجار کے قریب انسانی نوعیت کی بحرانی کیفیت کا حل ’صرف و صرف عراق میں سیاسی اصلاحات کے ذریعے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے‘۔
ایسے میں جب وائٹ ہاؤس نے کھل کر بیان نہیں دیا، آیا کون سے آپشنز زیر غور ہیں، عہدے داروں نے کہا ہےکہ امریکہ انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں پر کیے جانے والے حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، جس میں یزیدی بھی شامل ہیں، جو ایک قدیم مذہب پر عقیدہ رکھتے ہیں، جس کا ماضی میں زرتشتی اور مسیحیوں کے ساتھ ناطہ رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق، ایسے میں جب سنی انتہا پسندوں نے عراق کے شمال میں کافی علاقہ زیر کر لیا ہے، اس سلسلے میں دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے۔ انتہا پسندوں نے سنجار کے کُرد قصبے پر قبضہ کرکے اقلیتی یزیدی آبادی کو نکل جانے پر مجبور کیا، جب کہ اُن کے پاس خوراک اور پانی کی کمی ہے۔
عراق کے شمالی علاقے کے اس بحران کے سلسلے میں، صدر اوباما نے جمعرات کی صبح اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے ملاقات کی۔
ترجمان نے کہا کہ، یزیدیوں کی حالت زار سخت تشویش کا باعث ہے، جو حالیہ دِنوں کے دوران سنجار کے کُرد قصبے سے جان بچا کر نکلے ہیں۔ اس وقت جب دولت اسلامی کے ایک گروہ نے انتباہ جاری کیا کہ یا تو وہ اسلام قبول کریں، فدیہ ادا کریں، گھر بار چھوڑ دیں یا پھر موت کے لیے تیار ہوجائیں۔
اگر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر، صدر اوباما یزیدیوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے امداد کی فراہمی کی منظوری دیتے ہیں، تو امریکی فوج اِسے فضائی پرواز کے ذریعے متاثرہ لوگوں کے لیے گرا سکتی ہے۔ یا پھر، فوج عراقی فضائیہ کو امدادی اشیا فراہم کرنے کا مشورہ دے سکتی ہے آیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ امدادی اشیا کہاں اور کیسے تقسیم کی جا سکتی ہیں۔
ارنیسٹ نے کہا کہ کسی بھی طرح کی امریکی فوجی کارروائی محدود نوعیت کی ہوگی۔
دولت الاسلامیہ فی العراق ولاشام (داعش)، القاعدہ کی ایک شاخ ہے، جو حالیہ ہفتوں کے دوران عراق کے شمالی و مغربی علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہے، اور وہ اربیل کے کُرد دارلحکومت سے محض 30 منٹ کے فاصلے پر موجود ہے۔
اختتام ہفتہ، شدت پسندوں نے کرد افواج کو بدترین شکست دی، جس کے باعث قدیمی یزیدی برادری کے لاکھوں لوگ سنجار کا قصبے چھوڑ کر قرب و جوار کی پہاڑیوں کی طرف بھاگ نکلے ہیں۔
اقوام متحدہ کا دفتر برائے انسانی ہمدردی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران، سنجار کی پہاڑیوں میں پھنس کر رہ جانے والے کئی ہزار افراد کو بچا لیا گیا ہے۔ اس سے قبل، اُن کا کہنا تھا کہ لڑائی سے جان بچانے کے لیے 200000لوگ گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔