لیبیا میں اقتدار پر قبضے کی جنگ جاری ہے، جس کے نتیجے میں دو متحارب قوتوں کے درمیان ایک عرصے سے خونریز جھڑپوں سے متعلق متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔
علاقے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان دعووں کی تصدیق مشکل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لیبیا میں دو حریف حکومتوں کی وفادار فوجیں دارالحکومت طرابلس کے ارد گرد کامیابی کے دعوے کرتی رہتی ہیں۔ دونوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مدمقابل سےفوجی اہمیت کے ٹھکانوں اور دوسرے علاقوں کا قبضہ چھین لیا جائے۔
قاہرہ سے وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ایڈورڈ یرانیان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طرابلس کی سرکاری افواج دارالحکومت کے اندر ازسر نو ٹھکانے بنا رہی ہیں۔
ان کے مطابق، ایک غیر پیشہ ورانہ ویڈیو میں، جسے مشرقی حصے کے فوجی سربراہ جنرل خلیفہ ہفتار کی وفادار فوجوں نے پوسٹ کیا ہے، یہ دکھایا گیا ہے کہ بظاہر جنرل ہفتار کے فوجی پیش قدمی کر رہے ہیں؛ جبکہ ایک دوسری ویڈیو میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ حریف افواج طرابلس شہر کے مزید اندر کی جانب جا رہی ہیں۔ دونوں دعووں کی تصدیق کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
وزیراعظم فائز السراج کی طرابلس حکومت کے ایک ٹویٹر اکاونٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ان کی افواج نے جنرل ہفتار کے دھڑے کے راکٹوں اور فوجی گاڑیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ تاہم، وائس آف امریکہ ان دعووں کی بھی تصدیق نہیں کر سکا۔
واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر، پاول سیلون نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا میں جنگ کے گرد و غبار کے تلے غلط معلومات کی تشہیر اور صریحا ًجھوٹ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جبکہ فریقین اکا دکا کامیابی کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، لیبیا کے عوام کے لئے اب دیر ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس بھیانک خواب کو اب ختم ہونا چاہئے۔
اسی دوران لیبیا کے ذرائع ابلاغ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ طرابلس پر قائم حکومت کے قریبی ذرائع ابلاغ الزام لگاتے ہیں کہ جنرل ہفتار کے دھڑے نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دارلحکومت کے اندر گولا باری میں ایک ہی خاندان کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دوسری جانب ہفتار کی وفادار میڈیا نے اسپیکیر پارلیمنٹ عاقلہ صلاح کو ان لوگوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا ہے جنھیں مبینہ طور پر حریف طرابلس حکومت کی فوجوں نے ہلاک کر دیا ہے۔
اسی دوران، ترکی نے دھمکی دی ہے کہ اگر ترکی کے سفارتی مشن یا اس کے مفادات پر ضرب لگائی گئی تو وہ ہفتار کی وفادار افواج پر حملہ کر دے گا۔ ترکی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے طرابلس میں اس کے سفارتخانے کے ارد گرد والے علاقے کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ہفتار کا حامی دھڑا اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔
یاد رہے کہ ترکی، قطر اور اٹلی طرابلس میں موجود حکومت کے حامی ہیں، جب کہ متحدہ عرب امارات، مصر، سعودی عرب، فرانس اور روس جنرل ہفتار کی حمایت کرتے ہیں۔