امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے درمیان نیو یارک میں جاری اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر منگل کو ملاقات ہوئی، جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اور کشمیر کا بھی ذکر ہوا۔
ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم مودی سے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کریں اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عوام کے حالات بہتر بنانے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔
بیان کے مطابق، صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیرِ اعظم سے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم جب ایک دوسرے کو سمجھ لیں گے تو ملاقات کریں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اور نریندر مودی کے درمیان کوئی ملاقات ہوئی تو اس کا اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کشمیر کے معاملے پر کچھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بڑی بات ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق، صدر ٹرمپ نے نریندر مودی سے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کریں۔
امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم کی ملاقات کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے سے کبھی نہیں کترایا۔
سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ملاقات میں وزیرِ اعظم مودی نے دہشت گردی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی وجہ سے جمّوں و کشمیر میں گزشتہ 30 برسوں میں 42 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی متعدد بار پیشکش کی جا چکی ہے۔
لیکن بھارت کا مؤقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان اپنی زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے نہیں روکتا، تب تک مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی زمین کسی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
بھارت کے ایک سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کو ’ہاؤڈی مودی‘ پروگرام میں کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیرِ اعظم سمیت دیگر حکومتی عہدے داروں کو ایسی کسی بھی جگہ جانے سے گریز کرنا چاہیے جہاں پاکستان کی نمائندگی ہو یا پھر اس کی جانب سے بیانات آنے کا امکان ہو۔
پشپ رنجن کے بقول، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھ رہا ہے اور بھارت کے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمّوں و کشمیر میں حالات معمول پر آنے میں جتنا زیادہ وقت لگے گا، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ اتنی ہی شدّت سے اٹھے گا۔