کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کے انتقال پر امریکی صدر براک اوباما اور نو منتخب صدر کے بیانات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
صدر اوباما نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ملک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
ان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم فیدل کاسترو کے خاندان سے تعزیت کرتے ہیں اور ہمارے الفاظ اور ہماری دعائیں کیوبا کے عوام کے ساتھ ہیں۔ کیوبا کے عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ میں ان کے ایک دوست اور شراکت دار موجود ہیں۔
یہ چیز محسوس کرتے ہوئے کہ کیوبا اور امریکہ میں کیوبا کے عوام کاسترو کے انتقال پر ملے جلے تاثرات رکھتے ہیں، مسٹر اوباما نے دنیا کے کئی دوسرے راہنماؤں کی طرح کاسترو کی تعریف یا مذمت نہیں کی بلکہ اس کی بحائے انہوں نے یہ کہا کہ یہ فیصلہ تاریخ کو کرنے دیں کہ دنیا پر کاسترو کس طرح اثر انداز ہوئے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے اپنے صدارتی دور میں بہت کوشش کی کہ ہم اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر مستقبل کی جانب دیکھیں جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہت سے معاملات میں اختلافات کی بنا پر نہیں بلکہ ایک ہمسایہ اور دوست ہونے کے ناطے ثقافتی ، تجارتی اور دوستانہ تعلقات اور مشترکہ انسانی پہلوؤں کی بنیاد پر پر کھا جائے گا۔
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل اس سے مختلف تھا۔ ہفتے کی صبح انہوں یہ ٹویٹ کیا کہ کاسترو مرچکا ہے۔
بعد میں ان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کاسترو کو ایک ظالم ڈکٹیڑ کہہ کر پکارا گیا اور یہ کہا گیا کہ انہوں نے تقربیاً 60 سال تک اپنے عوام پر جبر و استبداد جاری رکھا۔
ان کے بیان میں کہا گیا کہ کاسترو اپنے پیچھے جو اثاثہ چھوڑ گئے ہیں وہ ہیں، گولیاں چلانے والے دستے، لوٹ مار ، ناقابل تصور مصائب و مظالم، غربت اور بنیادی انسانی حقوق سے انکار ۔