امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی آن لائن موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ایک ماہ قبل بنایا گیا ویب پیج بلاگ بھی ختم کر دیا ہے جس کے بعد اب ٹرمپ کسی آن لائن یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر متحرک نہیں رہے۔
ٹرمپ کے ایک اعلیٰ مشیر جیسن مِلر نے بدھ کو نشریاتی ادارے 'سی این بی سی' کو بتایا کہ 'فرام دی ڈیسک آف ڈونلڈ جے ٹرمپ' کے نام سے بنایا گیا ویب پیج ہٹا دیا گیا ہے۔
ملر کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ بلاگ جس کے ذریعے سابق صدر، امریکی سیاست، خارجہ اُمور اور سماجی ایشوز پر تبصرہ کرتے تھے اب مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے مشیر نے کہا کہ ''یہ ویب پیج بلاگ سابق صدر کی وسیع تر کوششوں کا ایک حصہ تھا جن پر کام جاری ہے۔" تاہم، جیسن ملر نے ٹرمپ کے کسی نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر واپسی سے متعلق کوئی ٹائم لائن نہیں دی۔
جب ٹرمپ نے پہلا بلاگ لکھا تو عام تاثر یہی تھا کہ یہ نئے رابطے کا ایک پلیٹ فارم ہو گا۔
جیسن ملر کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویب پیج سابق صدر کے بیانات تک رسائی کے لیے ایک اچھا ذریعہ تھا۔ تاہم، اُنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ اُن کا نیا سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں تھا۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ کے مطابق، سابق امریکی صدر کی سوشل میڈیا پر دوبارہ متحرک ہونے کی کوششیں بظاہر کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدارت سے ہٹنے کے بعد ٹرمپ سے متعلق خبروں، تبصروں پر آن لائن کمنٹس، ردِعمل اور عوامی دلچسپی کی شرح میں 95 فی صد تک کمی آئی ہے اور یہ شرح 2016 میں اُن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے نچلی ترین سطح پر ہے۔
ایک وقت تھا جب سوشل میڈیا پر ٹرمپ کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ صدر تھے اور آئے دن ان کے متعدد بیانات سوشل میڈیا کی زینت بنتے تھے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وہ اپنے لاکھوں فالورز کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اپنے بیانات میں وہ اپنے سیاسی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف جارحانہ بیانات دیا کرتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنے حامی ری پبلکنز کی کھل کر حمایت جب کہ اپنی ہی پارٹی کے بعض رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
علاوہ ازیں، سابق صدر ٹرمپ روزمرہ کی سرکاری مصروفیات کا احوال اور ان پر تبصرے بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے تھے۔
البتہ، جنوری میں ٹوئٹر اور فیس بک نے اس وقت صدارت کے منصب پر فائز ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹس معطل کرتے ہوئے اُن پر مستقل طور پر پابندی عائد کر دی تھی، جب چھ جنوری کو امریکی کانگریس میں قانون ساز نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے جمع تھے کہ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔
ٹرمپ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنے حامیوں کو حملے کے لیے اُکسایا اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ کیپٹل ہل جائیں اور قانون سازوں کو الیکٹورل کالج کے انتخابی نتائج کی توثیق سے روکیں۔ تاہم، ٹرمپ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ کیپٹل ہل پر حملے میں پولیس اہل کار سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اراکینِ کانگریس کے لئے بھی خطرات پیدا ہو گئے تھے۔
ایک عرصے سے ٹرمپ اور ان کے سیاسی اتحادی سوشل میڈیا کے اداروں پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ قدامت پسند نکتۂ نظر کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے فیس بک کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''یہ ملک کے لیے بدنامی اور شرمندگی کا باعث ہے۔''
البتہ، سوشل میڈیا پر پذیرائی کم ہونے کے باوجود تجزیہ کاروں کے بقول سابق صدر اب بھی ری پبلکن پارٹی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
صدارت سے ہٹنے کے بعد سے ٹرمپ اب اپنا زیادہ تر وقت فلوریڈا میں موجود اپنے ریزورٹ میں گزار رہے ہیں جب کہ اس دوران اُنہوں نے اپنی سیاسی مصروفیات بھی محدود رکھی ہیں۔
البتہ، اپنے حامی سمجھے جانے والے میڈیا اداروں کو انٹرویوز اور بعض ری پبلکن رہنماؤں سے ملاقات کے دوران ٹرمپ سیاست میں دوبارہ متحرک ہونے کے بیانات دیتے رہے ہیں۔
تین نومبر کے انتخابات میں ٹرمپ کو ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے آج تک صدر جو بائیڈن کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔
ٹرمپ کا اصرار رہا ہے کہ تین نومبر کے انتخابات میں ووٹرز فراڈ اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ تاہم، امریکی عدالتوں نے صدر اور اُن کے حامیوں کے اس ضمن میں متعدد انتخابی دعووں کو مسترد کر دیا تھا۔