امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تین نومبر کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کو تبدیل کر کے رہیں گے۔
صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے منگل کو ایک مختصر فیصلے میں ریاست پینسلوینیا سے جو بائیڈن کی کامیابی کے خلاف دائر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
تاہم صدر کا کہنا ہے کہ وہ ریاست ٹیکساس کے قدامت پسند اٹارنی جنرل کین پیکسٹن کی جانب سے چار ریاستوں جارجیا، مشی گن، وسکونسن اور پینسلوینیا میں انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف دائر نئے مقدمے کی حمایت کریں گے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن ریاست پینسلوینیا سے 81 ہزار ووٹ کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔
پیکسٹن کی جانب سے دائر کیے گئے نئے مقدمے میں ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی میں مبینہ بے ضابطگیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تاہم اس سے پہلے اس نوعیت کی دیگر درخواستوں کو ریاستی اور وفاقی عدالتیں مسترد کرتی رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "ٹیکساس میں دائر کیے گئے مقدمے میں چار ریاستوں میں وسیع پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیوں کے ثبوت دیے گئے ہیں۔
ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ پر بھی انتباہی نوٹس لگا دیا ہے۔
صدر نے کہا کہ بہت جلد ہم اس لفظ کے معنی سیکھ جائیں گے جسے 'ہمت' کہتے ہیں اور پھر ہم اپنے ملک کو بچائیں گے۔
صدر نے کہا کہ اُنہوں نے 'سوئنگ' ریاستوں میں اپنے حریف اُمیدوار سے زیادہ قانونی ووٹ حاصل کیے۔ الیکشن کے بعد سامنے آنے والا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ میرا ہارنا ناممکن تھا اگر یہ سب 'فکسڈ' نہ ہوتا۔
ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ان چار ریاستوں کے حکام نے کرونا وبا کی آڑ میں ایسے انتخابی قوانین وضع کیے جس سے بیلٹ کی ساکھ کمزور ہوئی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ 14 دسمبر کو الیکٹورل کالج کے اجلاس کو مؤخر کیا جائے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں مروجہ انتخابی نظام کے تحت الیکشن کے روز عوام اپنے ووٹ کے ذریعے الیکٹرز کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ الیکٹرز دسمبر میں ملک کے آئندہ صدر کو ووٹ دیتے ہیں۔
تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق بائیڈن 306 الیکٹورل ووٹ کے ساتھ کامیاب قرار پائے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ نے 232 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔
صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں مبینہ دھاندلی کے خلاف عدالتوں میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہو رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی اپنی جماعت کے کئی رہنما اُن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں اور جو بائیڈن کو مبارک باد دیں۔
ریاست ٹینیسی سے ری پبلکنز کے ریٹائر ہونے والے سینیٹر لامار الیگزینڈر نے کہا کہ پیر کو جب الیکٹورل کالج بائیڈن کی فتح کی توثیق کر دے تو ٹرمپ کو بھی اپنی ہار تسلیم کر لینی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "میں اُمید کرتا ہوں کہ صدر سب سے پہلے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے بائیڈن کو مبارک باد دیں گے۔"
انتخابات کے نتائج کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اگلا مرحلہ 14 دسمبر ہے جب امریکہ بھر میں الیکٹورل کالج کے 538 ممبران صدر کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔
انتخابی نتائج کی رسمی طور پر توثیق کانگریس سے چھ جنوری کو ہونے والے اجلاس سے حاصل ہوتی ہے، جب اس کے اراکین الیکٹورل کالج کے فیصلے پر تصدیقی مہر لگاتے ہیں۔
نو منتخب صدر 20 جنوری کو حلف اٹھائیں گے جس سے امریکہ کے چھیالیسویں صدر کی چار سالہ مدت کا آغاز ہو گا۔