ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو عندیہ دیا کہ وہ 8 نومبر کے انتخاب کے تنائج کو مشروط طور پر تسلیم کریں گے۔
ٹرمپ نے اوہائیو کے شہر ڈلاویئر میں ایک انتخابی تقریب میں اپنے حامیوں کو بتایا کہ ’’میں واضح انتخابی نتائج کو قبول کروں گا۔ لیکن، شک والے نتائج کی صورت میں، میں تکرار کا اور قانونی طور پر چیلنج کرنے کا بھی حق رکھتا ہوں ‘‘۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ’’اگر میں جیت جاتا ہوں تو میں اس بڑے اور تاریخی صدارتی انتخاب کو مکمل طور پر تسلیم کروں گا’’۔ تاہم، بعدازاں، اُنھوں نے اپنا مؤقف بدلا کہ وہ چیلنج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب کے آخری دِنوں میں ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو اس وقت متنازع باتوں سے واسطہ ہے، جس سے ایک ہی روز قبل ٹرمپ نے اپنا بیانیہ جاری رکھا کہ انتخابی عمل ’’دھاندلی زدہ‘‘ ہے، اور ووٹ کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
بدھ کی رات نیواڈا کے شہر لاس ویگاس کے مغربی امریکی شہر میں منعقدہ تیسرے اور آخری صدارتی مباحثے کے دوران، ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’میں اُسی وقت اِس پر بات کروں گا‘‘۔
مباحثے کے بعد، ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار، کلنٹن نے ٹرمپ کے انکار کو ’’انتخابی مہم میں جہاں میں کھڑا ہوں، اُس کا الزام دوسرے پر جاتا ہے‘‘ کے مترادف قرار دیا۔
لاس ویگاس مباحثے کے ایک روز بعد، کلنٹن نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی، اُنھوں نےاپنے پختہ حامیوں کی ایک ٹیم کئی کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں کی جانب روانہ کی۔
صدر براک اوباما نے بھی جمعرات کی شام فلوریڈا میں اُن کی انتخابی مہم میں شرکت کی، جس ریاست کے 29 الیکٹورل ووٹ ہیں، جو کسی دوسری سخت مقابلے والی ریاست سے زیادہ ہیں۔
خاتون اول مشیل اوباما نے ایروزونا کی کلیدی ریاست میں کلنٹن کی انتخابی مہم میں شرکت کی؛ جب کہ نائب صدر جو بائیڈن نے نیو ہیمپشائر کے شہر، نشوا میں انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ کلنٹن کے ساتھی امیدوار، ٹِم کین جمعرات کو نارتھ کیرولینا کی کانٹے کے مقابلے والی ریاست میں دو انتخابی تقریبات سے خطاب کرنے والے ہیں۔