کراچی —
ترکی کے صدر عبداللہ گل نے ’یو ٹیوب‘ اور ’فیس بک‘ پر پابندی لگانے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
ترک صدر کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پابندی لگانے کی تردید وزیراعظم رجب طیب اردگان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے ’فیس بک‘ اور’ یوٹیوب‘ کو مخالفین کی جانب سے پروپیگنڈے کے لئے استعمال کئے جانے کا الزام لگا کر بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
وزیراعظم طیب اردگان کی حکمراں ’اے کے پارٹی‘ کے شریک خالق صدر عبداللہ گل نے اپنے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آزادی اظہار اور رائے حکومت کی اصلاحات کا اہم حصہ ہیں۔حکومت نے آزادی اظہار کے لئے اب تک جتنی بھی اصلاحات کی ہیں ان پر فخر ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز نے بتایا ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان نے’فیس بک‘ اور ’یوٹیوب‘ پر پابندی لگانے کی بات کی تھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر ان کے قریبی حلقوں کے کرپشن سے متعلق جعلی ریکاڈنگز اور ٹیپس اپ لوڈ کرکے ان کی ذاتی اور حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، جس کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔
ترکی ان 15ممالک میں شامل ہے جہاں ’فیس بک‘ سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ سات کروڑ ستر لاکھ آبادی والے ملک میں فیس بک یوزرز کی تعداد ایک کروڑ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ترکی میں ’یوٹیوب‘ پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ترکی میں ’یوٹیوب‘ دوسال سے زائد عرصے تک بند رہی تھی جسے سال 2010میں ختم کیا گیا۔
’یوٹیوب‘پرپابندی کی وجہ یوزرز کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی وہ ویڈیوز تھیں جن میں حکومت کے موقف کے مطابق ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی توہین کی گئی تھی۔
پابندی کے بارے میں ’فیس بک‘ یا ’یو ٹیوب‘ کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ترک صدر کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پابندی لگانے کی تردید وزیراعظم رجب طیب اردگان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے ’فیس بک‘ اور’ یوٹیوب‘ کو مخالفین کی جانب سے پروپیگنڈے کے لئے استعمال کئے جانے کا الزام لگا کر بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
وزیراعظم طیب اردگان کی حکمراں ’اے کے پارٹی‘ کے شریک خالق صدر عبداللہ گل نے اپنے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آزادی اظہار اور رائے حکومت کی اصلاحات کا اہم حصہ ہیں۔حکومت نے آزادی اظہار کے لئے اب تک جتنی بھی اصلاحات کی ہیں ان پر فخر ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز نے بتایا ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان نے’فیس بک‘ اور ’یوٹیوب‘ پر پابندی لگانے کی بات کی تھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر ان کے قریبی حلقوں کے کرپشن سے متعلق جعلی ریکاڈنگز اور ٹیپس اپ لوڈ کرکے ان کی ذاتی اور حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، جس کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔
ترکی ان 15ممالک میں شامل ہے جہاں ’فیس بک‘ سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ سات کروڑ ستر لاکھ آبادی والے ملک میں فیس بک یوزرز کی تعداد ایک کروڑ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ترکی میں ’یوٹیوب‘ پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ترکی میں ’یوٹیوب‘ دوسال سے زائد عرصے تک بند رہی تھی جسے سال 2010میں ختم کیا گیا۔
’یوٹیوب‘پرپابندی کی وجہ یوزرز کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی وہ ویڈیوز تھیں جن میں حکومت کے موقف کے مطابق ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی توہین کی گئی تھی۔
پابندی کے بارے میں ’فیس بک‘ یا ’یو ٹیوب‘ کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔