واشنگٹن —
ترکی میں حکومت پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف ’سائبر وار‘ پر عمل پیرا ہے۔
اُن کے مخالفین نے احتجاجی مظاہرے کرنے اور اعلیٰ سطحی سرکاری بدعنوانی کے الزامات کی تشہیر کے لیے سماجی میڈیا کا رُخ کیا ہے۔
ڈوران جونز نے استنبول سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے حصول کے بعد، وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی کے ساتھ ساتھ اُن متعدد اخبارات کے خلاف سائبر حملے ہوئے جو حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات اور سیہان نیوز ایجنسی پر ہوئے، جس کے مالک وزیر اعظم کے ایک سرکردہ مخالف ہیں۔
سیہان نیوز ایجنسی کے تکنیکی اہل کار، یوسف کینان کے بقول، اس مسئلے کا آغاز انتخاب کے روز سے ہوا۔
کینان نے حکومت پر براہِ راست انگلی اُٹھانے سے احتراز کیا۔
تاہم، روزنامہ ’زمان‘ کے کالم نگار اور صحافی، سیگی اکریسم، جن کا اخبار بھی سائبر حملے کا ہدف بنتا رہا ہے، کا کہنا ہے کہ اُنھیں اِس بات میں کوئی شبہ نہیں۔
بقول اُن کے، آج کل ترکی میں، ’زمان‘ وزیر اعظم رجب طیب اردگان کا براہ راست ہدف بن چکا ہے، اور انتخابات کے دِن سے ’زمان‘ اور ’زمان ویب سائٹ‘ پر کچھ عرصے تک پابندی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سائبر حملے کی کارروائی کا ایک انضباطی حصہ ہے۔ ظاہر ہے، ہمارے پاس اِن سرکاری حملوں کو ثابت کرنے کے لیے سرکاری دستاویزات تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن، کوئی عقل سے عاری ہی ہوگا جو اس بات سے انکار کرے کہ اس میں سرکار ملوث نہیں۔
حکومت اِن الزامات کو سختی سے رد کرتی ہے۔
تاہم، یہ اخبار اعلیٰ سطحی حکومت میں موجود رشوت ستانی کے الزامات کو صفحہ اول پر شائع کرتے آئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خبروں میں وزیر اعظم اردگان اور اُن کے اہل خانہ کو ملوث کیا جاتا رہا ہے۔
مسٹر اردگان اپنے ملک کے دورے پر ہیں۔ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ اُنھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں، اور ٹوئٹر اور یوٹیوب کے سماجی ابلاغ کے سائٹ ایسی سازشیں کرنے والوں کے پسندیدہ کلیدی ہتھیار ہیں۔ بدعنوانی سے متعلق یہ الزامات اِنہی سائٹوں کی زینت بنتے رہے ہیں، جس کے باعث اُن پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے، جب کہ ترک حکام نے 40000دیگر سائٹس پر بندش عائد کی ہوئی ہے۔
حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے لیے، اِسی ماہ، ٹوئٹر کے چوٹی کے عہدے دار انقرہ پہنچے۔ ملاقات کے بعد، معاون وزیر اعظم، بسیر اتالی نے اطمینان کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اب ٹوئٹر حکومتی مؤقف کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ درحقیقت، ٹوئٹر دیگر ملکوں میں بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’آئندہ ہمارے ملک کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں، اب ہمیں سماجی میڈیا سے کوئی مسائل درپیش نہیں۔‘
انقرہ کی ملاقات کے بعد، ٹوئٹر نے رشوت ستانی سے متعلق الزامات کی تشہیر کرنے والے دو کلیدی اکاؤنٹس بند کردیے۔ اس طرح کے عمل پر ترکی میں آزادی اظہار اور انٹرنیٹ کی آزادی کے حامیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یمان اکینیز، استنبول کی ’بلجی یونیورسٹی‘ میں ’سائبر آزادی‘ کی ایک ماہر ہیں۔ اُنھوں نے حکومت کی طرف سے ٹوئٹر پر پابندی کو ملک کی آئینی عدالت میں چیلنج کیا تھا، جس میں وہ کامیاب رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اُنھیں ٹوئٹر کی ترجیحات کے بارے میں خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ ترک حکام ویب سائٹس پر پابندیاں نافذ کرنے میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ، گوگل نے ترک حکام پر اُس کے ’ڈومین نیم سسٹم‘ پر بندش کا الزام لگایا، جو ترکی میں لگنے والی پابندیوں کے حربوں کو باآسانی ناکام بناتا آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی میں سخت کشیدگی کا ماحول ہے، اور اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران اِس کی شدت میں اضافے کا امکان ہے۔
انٹرنیٹ کے حوالے سے جاری جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں حکومت کامیابی کے حصول کے لیے پُرعزم دکھائی دیتی ہے۔
اُن کے مخالفین نے احتجاجی مظاہرے کرنے اور اعلیٰ سطحی سرکاری بدعنوانی کے الزامات کی تشہیر کے لیے سماجی میڈیا کا رُخ کیا ہے۔
ڈوران جونز نے استنبول سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے حصول کے بعد، وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی کے ساتھ ساتھ اُن متعدد اخبارات کے خلاف سائبر حملے ہوئے جو حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات اور سیہان نیوز ایجنسی پر ہوئے، جس کے مالک وزیر اعظم کے ایک سرکردہ مخالف ہیں۔
سیہان نیوز ایجنسی کے تکنیکی اہل کار، یوسف کینان کے بقول، اس مسئلے کا آغاز انتخاب کے روز سے ہوا۔
کینان نے حکومت پر براہِ راست انگلی اُٹھانے سے احتراز کیا۔
تاہم، روزنامہ ’زمان‘ کے کالم نگار اور صحافی، سیگی اکریسم، جن کا اخبار بھی سائبر حملے کا ہدف بنتا رہا ہے، کا کہنا ہے کہ اُنھیں اِس بات میں کوئی شبہ نہیں۔
بقول اُن کے، آج کل ترکی میں، ’زمان‘ وزیر اعظم رجب طیب اردگان کا براہ راست ہدف بن چکا ہے، اور انتخابات کے دِن سے ’زمان‘ اور ’زمان ویب سائٹ‘ پر کچھ عرصے تک پابندی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سائبر حملے کی کارروائی کا ایک انضباطی حصہ ہے۔ ظاہر ہے، ہمارے پاس اِن سرکاری حملوں کو ثابت کرنے کے لیے سرکاری دستاویزات تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن، کوئی عقل سے عاری ہی ہوگا جو اس بات سے انکار کرے کہ اس میں سرکار ملوث نہیں۔
حکومت اِن الزامات کو سختی سے رد کرتی ہے۔
تاہم، یہ اخبار اعلیٰ سطحی حکومت میں موجود رشوت ستانی کے الزامات کو صفحہ اول پر شائع کرتے آئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خبروں میں وزیر اعظم اردگان اور اُن کے اہل خانہ کو ملوث کیا جاتا رہا ہے۔
مسٹر اردگان اپنے ملک کے دورے پر ہیں۔ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ اُنھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں، اور ٹوئٹر اور یوٹیوب کے سماجی ابلاغ کے سائٹ ایسی سازشیں کرنے والوں کے پسندیدہ کلیدی ہتھیار ہیں۔ بدعنوانی سے متعلق یہ الزامات اِنہی سائٹوں کی زینت بنتے رہے ہیں، جس کے باعث اُن پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے، جب کہ ترک حکام نے 40000دیگر سائٹس پر بندش عائد کی ہوئی ہے۔
حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے لیے، اِسی ماہ، ٹوئٹر کے چوٹی کے عہدے دار انقرہ پہنچے۔ ملاقات کے بعد، معاون وزیر اعظم، بسیر اتالی نے اطمینان کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اب ٹوئٹر حکومتی مؤقف کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ درحقیقت، ٹوئٹر دیگر ملکوں میں بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’آئندہ ہمارے ملک کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں، اب ہمیں سماجی میڈیا سے کوئی مسائل درپیش نہیں۔‘
انقرہ کی ملاقات کے بعد، ٹوئٹر نے رشوت ستانی سے متعلق الزامات کی تشہیر کرنے والے دو کلیدی اکاؤنٹس بند کردیے۔ اس طرح کے عمل پر ترکی میں آزادی اظہار اور انٹرنیٹ کی آزادی کے حامیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یمان اکینیز، استنبول کی ’بلجی یونیورسٹی‘ میں ’سائبر آزادی‘ کی ایک ماہر ہیں۔ اُنھوں نے حکومت کی طرف سے ٹوئٹر پر پابندی کو ملک کی آئینی عدالت میں چیلنج کیا تھا، جس میں وہ کامیاب رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اُنھیں ٹوئٹر کی ترجیحات کے بارے میں خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ ترک حکام ویب سائٹس پر پابندیاں نافذ کرنے میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ، گوگل نے ترک حکام پر اُس کے ’ڈومین نیم سسٹم‘ پر بندش کا الزام لگایا، جو ترکی میں لگنے والی پابندیوں کے حربوں کو باآسانی ناکام بناتا آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی میں سخت کشیدگی کا ماحول ہے، اور اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران اِس کی شدت میں اضافے کا امکان ہے۔
انٹرنیٹ کے حوالے سے جاری جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں حکومت کامیابی کے حصول کے لیے پُرعزم دکھائی دیتی ہے۔