ترک صدر رجب طیب اردوان نے ملک میں ہنگامی حالات میں باضابطہ طور پر توسیع کر دی ہے، جسے سنہ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد نافذ کیا گیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ جب تک ملک میں ''بہتری اور امن'' نہیں آتا تب تک یہ حکم لاگو رہے گا۔
اردوان نے یہ بات انقرہ میں ہزاروں حامیوں اور حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جس کا اجلاس شریک بانی کو پارٹی کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
ہنگامی حالات کا نفاذ پارلیمانی منظوری یا عدالتی جائزے کے بغیر اردوان اور اُن کی کابینہ کو حکم نامہ جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
پارٹی کے سربراہ کے طور پر اردوان کے اس اعلان سے چار ہفتے قبل، قومی ریفرینڈم میں ترک ووٹروں نے اُن کے صدارتی اختیارات کی منظوری معمولی سی اکثریت سے دی تھی۔
اٹھارہ اپریل کو ہونے والی ووٹنگ کے نتیجے میں ایک طاقتور انتظامی صدارتی نظام قائم ہوا ہے، جس کے نتیجے میں کافی حد تک ترک قانون ساز اور وزیر اعظم کا عہدہ غیر موئثر ہو چکا ہے۔ آئینی ترامیم کے تحت، اردوان قومی بجٹ بھی ترتیب دیں گے اور اعلیٰ عدالتوں کے جج اور آئینی عدالت تعینات کر سکیں گے۔
ناقدین نے، جن میں انسانی حقوق کی نامور تنظیمیں شامل ہیں، دلیل دی ہے کہ اصلاحات کا نتیجے میں ایک منتخب آمریت نے جنم لیا ہے۔
اردوان اور اُن کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت کا ایک سہل نظام رائج کر سکیں گے، جو دہشت گردی سے بہتر طور پر نبردآزما ہو سکے گا اور معیشت کی سست روی ختم کر سکے گا۔