واشنگٹن —
ترکی میں حزبِ مخالف کے ایک مرکزی رہنما نے وزیرِاعظم طیب اوردگان پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں اضافے اور ملک کو "آگ میں گھسیٹنے" سے باز رہیں۔
حزبِ اختلاف کی بڑی سیکولر جماعت 'ریپبلکن پیپلز پارٹی' کے سربراہ کمال کیلک داراوغلو نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ترکی کو "ایک ایسا وزیرِاعظم ملا ہے جو کشیدگی پھیلا کر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے"۔
ترک اخبار 'حریت' نے حزبِ اختلاف کے رہنما کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں شائع کیا ہے جب ملک میں جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہرے گیارہویں روز بھی جاری ہیں۔
پیر کو وزیرِاعظم اردگان نے کابینہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں ملک کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
تجزیہ کار احتجاجی مظاہروں کی حالیہ لہر کو 10 سال سے برسرِ اقتدار اردگان حکومت کو گزشتہ ایک دہائی میں درپیش ہونے والا سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
پیر کو بھی ترکی کےمختلف بڑے شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپ اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے جواب مظاہروں کے شرکا نے پتھراؤ سے دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیرِاعظم اردگان نے خبردار کیا تھا کہ حکومت مخالف مظاہروں پر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔
اتوار کو دارالحکومت انقرہ میں جمع ہونے والے اپنے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے جناب اردگان نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو اپنے اس فعل کی"قیمت ادا کرنی ہوگی"۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ "اب وہی زبان بولنے والے ہیں جو مظاہرین سمجھتے ہیں"۔
ترک وزیرِاعظم نے اپنی اسلام پسند جماعت 'جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی' کے کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ پرتشدد کاروائیوں کا حصہ نہ بنیں اور آئندہ برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے اپنے مخالفین کو "سبق سکھادیں"۔
استنبول میں ایک عوامی پارک کی تعمیرِ نو کے سرکاری منصوبے کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج نے گزشتہ 10 روز کے دوران میں حکومت مخالف تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کے لبرل اور سیکولر عناصر ان مظاہروں کے ذریعے حکومت کے ان اقدامات پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں جنہیں وہ ملک کی سیکولر شناخت کے خلاف اور حکمران جماعت کے اسلام پسند ایجنڈے کے مطابق گردانتے ہیں۔
ان مظاہروں کے دوران میں اب تک تین افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی بڑی سیکولر جماعت 'ریپبلکن پیپلز پارٹی' کے سربراہ کمال کیلک داراوغلو نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ترکی کو "ایک ایسا وزیرِاعظم ملا ہے جو کشیدگی پھیلا کر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے"۔
ترک اخبار 'حریت' نے حزبِ اختلاف کے رہنما کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں شائع کیا ہے جب ملک میں جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہرے گیارہویں روز بھی جاری ہیں۔
پیر کو وزیرِاعظم اردگان نے کابینہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں ملک کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
تجزیہ کار احتجاجی مظاہروں کی حالیہ لہر کو 10 سال سے برسرِ اقتدار اردگان حکومت کو گزشتہ ایک دہائی میں درپیش ہونے والا سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
پیر کو بھی ترکی کےمختلف بڑے شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپ اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے جواب مظاہروں کے شرکا نے پتھراؤ سے دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیرِاعظم اردگان نے خبردار کیا تھا کہ حکومت مخالف مظاہروں پر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔
اتوار کو دارالحکومت انقرہ میں جمع ہونے والے اپنے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے جناب اردگان نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو اپنے اس فعل کی"قیمت ادا کرنی ہوگی"۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ "اب وہی زبان بولنے والے ہیں جو مظاہرین سمجھتے ہیں"۔
ترک وزیرِاعظم نے اپنی اسلام پسند جماعت 'جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی' کے کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ پرتشدد کاروائیوں کا حصہ نہ بنیں اور آئندہ برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے اپنے مخالفین کو "سبق سکھادیں"۔
استنبول میں ایک عوامی پارک کی تعمیرِ نو کے سرکاری منصوبے کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج نے گزشتہ 10 روز کے دوران میں حکومت مخالف تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کے لبرل اور سیکولر عناصر ان مظاہروں کے ذریعے حکومت کے ان اقدامات پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں جنہیں وہ ملک کی سیکولر شناخت کے خلاف اور حکمران جماعت کے اسلام پسند ایجنڈے کے مطابق گردانتے ہیں۔
ان مظاہروں کے دوران میں اب تک تین افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔