صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کی جانب سے ناکام ہونے والی بغاوت پر جاری ’کریک ڈاؤن‘ کے دوران، ترکی نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ 2400 سے زائد فوجی اہل کاروں کو معطل جب کہ میڈیا کے بیسیوں اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔
کم از کم ایک صحافی کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ ملک کے بڑے روزنامے ’زمان‘ کےادارتی عملے کے تقریباً 50 سابق ارکان کے خلاف گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ اخباری میڈیا کے خلاف ایسے اقدام ’’پریشان کُن رُجحان‘‘ کے غماز ہیں۔
ترکی کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے اور نجی خبروں کے اداروں نے بتایا ہے کہ 45 زونامہ اخبارات کے ساتھ ساتھ تین خبر رساں اداروں اور 16 صحافیوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل 42 صحافیوں کی گرفتاری کے انفرادی احکامات جاری کیے گئے تھے، جن میں سے 16 پہلے ہی زیر حراست ہیں۔
بدھ کے روز اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں حقوقِ انسانی کے گروپوں اور ترکی کے مغربی اتحادیوں میں تشویش بڑھی ہے، آیا 15 اور 16 جولائی کی ناکام بغاوت کے تناظر میں صدر اردوان مزید کتنے افراد کو ہٹائیں گے۔
گرفتاری کے زیادہ تر حالیہ احکامات صحافیوں کے خلاف اٹھائے گئے ہیں، جو مبینہ طور پر امریکہ میں مقیم عالم دین سے واسطہ رکھتے ہین جن کے لیے اردوان کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے اس ماہ کے اوائل کی ناکام بغاوت میں سرکردہ کردار ادا کیا ہے۔
زمان کو چار ماہ قبل سرکاری کنٹرول میں لیا گیا تھا، جسے امریکہ میں مقیم عالم دین، فتح اللہ گولن کی تحریک سے واستہ بتایا گیا تھا۔ مارچ سے اب تک اپنی رپورٹنگ میں یہ اخبار حکومت کی کُھل کر حمایت کرتا رہا ہے۔