ترکی کی طرف سے روس کا ایک جنگی جہاز گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان لفظوں کی جنگ جاری ہے اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا کہ روس ’‘آگ سے مت کھیلے۔‘‘
ترکی کے شمال مشرقی شہر بیبرت میں اپنے خطاب میں صدر اردوان نے روس پر الزام لگایا کہ داعش سے لڑائی کے ’’بہانے‘‘ وہ صدر بشار الاسد کے مخالف گروہوں اور ’’انسانی امداد اور تجارتی سرگرمیوں‘‘ میں مصروف ٹرکوں کو نشانہ بنا کر ’’آگ سے کھیل رہا ہے۔‘‘
ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے نے ایک ترک امدادی گروپ کے حوالے سے کہا ہے کہ روسی جہازوں نے شام میں ترک سرحد کے قریب ایک ترک امدادی قافلے کو نشانہ بنایا جس سے سات افراد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔
روس نے منگل کو ترکی کی طرف سے اس کا جنگی جہاز مار گرائے جانے کی شدید مذمت کی تھی جس سے شام کی جنگ میں مخالف طرفین کی حمایت کرنے والے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے جس کا دائرہ وسیع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کو اپنی تقریر میں اردوان نے صدر پوتن کی جانب سے ایک دن پہلے دیے گئے بیان کا جواب دیا تھا جس میں انہوں نے بظاہر ترکی کے حوالے سے کہا تھا کہ جو لوگ دہشت گردوں کے ساتھ ’’مجرمانہ کاروبار‘‘ کرتے ہیں اور انہیں ’’اپنے سیاسی مقاصد کے لیے‘‘ استعمال کرتے ہیں وہ ’’آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘‘
اردوان نے روس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ترکی کی طرف سے طیارہ گرائے جانے کو استعمال کرکے ترکی کے خلاف ’’ناقابل قبول‘‘ الزام تراشی کر رہا ہے۔ انہوں نے ترکی کے خلاف روس کے ان الزامات کو، کہ وہ داعش سے تیل خرید رہا ہے، ’’بہتان‘‘ قرار دیا۔
اردوان نے کہا کہ ترکی دہشت گرد تنظیم سے نہیں، روس سے تیل خرید رہا ہے۔
تاہم اردوان نے کہا کہ وہ پیر کو پیرس میں ہونے والی موسمیاتی تغیر پر ایک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پوتن سے ’’آمنے سامنے‘‘ ملاقات کریں گے۔
پوتن نے ترک صدر کی اس تجویز کا جواب نہیں دیا۔ اس کی بجائے روس کے امور خارجہ کے مشیر یوری یوشاکوف نے جمعے کو ’’ترکی کی طرف سے طیارہ گرانے کے واقعے پر معذرت کے لیے تیار نہ ہونے‘‘ کا حوالہ دیا۔
جمعہ کو روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے دونوں ممالک کے درمیان ویزے کے بغیر سفر کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کی حکومت نے ’’قابل قبول باتوں کی حد پار کر دی ہے۔‘‘
تاہم ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے برطانیہ کے ایک اخبار ’دی ٹائمز‘ میں ایک مضمون میں مفاہمانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے اقدامات کو برقرار رکھتے ہوئے ترکی روس اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کے لیے کام کرے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ سب سے پہلی ترجیح ہے۔
اس سے قبل صدر پوتن نے کہا تھا کہ ترکی نے روس کا جہاز گرا کر اسے دھوکہ دیا ہے کیونکہ روس ترکی کو دوست ملک سمجھتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو روسی طیارے کے راستے کے بارے میں معلوم تھا اور اسے ترکی کو اس کے بارے میں بتانا چاہیئے تھا۔
تاہم امریکہ عہدیداروں نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ روس نے امریکہ کو اپنے جنگی طیارے کے راستے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔